فی اﷲ‘‘ مولوی حکیم نورالدین بھیروی، مولوی صاحب ممدوح کا حال کسی قدر رسالہ فتح الاسلام میں لکھ آیا ہوں۔ لیکن ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں۔ (ازالہ اوہام ص۷۷۸، خزائن ج۳ ص۵۲۰) ’’لیکن پھر بھی انہوں نے بارہ سو روپے نقد متفرق حاجتوں کے وقت اس سلسلۂ کی تائید میں دیا اور اب بیس روپے ماہواری دینا اپنے اوپر واجب کر لیا اور اس کے سوا اور بھی ان کی مالی خدمات ہیں جو طرح طرح کے رنگوں میں ان کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۹۴۴، خزائن ج۳ ص۶۲۳) ’’عالی ہمت دوستوں کی خدمت میں گذارش۔ چونکہ طبع کتاب (ازالہ اوہام) میں معمول سے زیادہ مصارف ہوگئے ہیں اور مالک مطبع اور کاتب کا حساب بے باق کرنے کے لئے روپے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا بخدمت جمیع مخلص دوستوں کے التماس ہے کہ حتیٰ الوسع اس کتاب کی خریداری سے بہت جلد مدد دیں جو صاحب چند نسخے خرید سکتے ہیں۔ وہ بجائے ایک کے اس قدر نسخے خرید لیں۔ جس قدر ان کو خریدنے کی خداداد مقدرت حاصل ہے اور اس جگہ اخویم مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب معالج ریاست جموں کی نئی امداد جو انہوں نے کئی نوٹ اس وقت بھیجے قابل اظہار ہے۔ خداتعالیٰ ان کو جزاء خیر بخشے۔ ایسا ہی اخویم مکرم فضل دین صاحب بھیروی نے علاوہ اس تین سو روپے کے جو پہلے بھیجا تھا اب ایک سو روپے اور بھیج دیا۔‘‘
مجھے اس امر پر اعتراض نہیں ہے کہ یہ لوگ مرزاقادیانی کو دیتے ہیں یا مرزاقادیانی ان سے کیوں لیتے ہیں۔ اس کا دینا ان کے اعتقاد کے موافق سعادت ہے۔ مگر مولوی صاحب کی تعلّی اور لالچ دہی کا جواب ہے۔ دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ ازالہ اوہام کی کل لاگت تخمیناً چار سو کی ہے اور چار سو فضل دین سے آچکے اور حکیم نارالدین کے نوٹ علاوہ رہے اور فی جلد تین روپے اس کی قیمت رکھی ہے۔ جس کے حساب سے اکیس سو ہوئے۔ اب فرمائیے کہ یہ لالچی کون ہے؟ اور یہ کیسے رئیس اور تعلقہ دار مالدار ہیں؟ اگر اس ریاست پر یہ حال ہے تو اور تو میں کچھ نہیں کہتا۔ مگر آپ کے حال پر ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھتا ہوں۔
قولہ… ’’پھر گزارش یہ ہے کہ احقر نے کون سے الہام کو بلا بیّنہ تسلیم کر لیا ہے۔‘‘
اقول… گزارش یہ ہے کہ جناب نے مرزاقادیانی کے الہام کو جن بیّنہ سے تسلیم کیا ہے۔ مہربانی فرماکر ان کو بیان کر دیجئے اور براہین احمدیہ کے الہاموں کا حال اکثر تو ظاہر ہوگیا اور ظاہر