کی مثل مشہور عالم ہے۔ آپ کا وہی وطن شریف ہے یا قادیان زیادہ نیک نام ہے۔ دہلی امروہے اور قادیان کے مقابل کیونکر نیک نام ہوکہ آج تک نہ کوئی دہلی کا جاہل نبی بنا، نہ کوئی عالم اس کا فرشتہ بنا۔ (گو فرشتہ سیرت بہت ہوئے) نہ دہلی کے حق میں مثل قادیان کوئی آیت قرآن مجید میں نازل ہوئی (دیکھو ازالہ اوہام حاشیہ ص۷۷، خزائن ج۳ ص۱۳۹ حاشیہ) واقع میں نیک نام تو اوّل قادیان ہے۔ اس کے بعد امرو ہہ۔ کیونکہ وہاں شیخ سدو صاحب کا مقام ہے۔ مگر جناب من سزاوار عتاب تو عاجز ہے۔ دہلی نے کیا قصور کیا جو اس پر عتاب ہورہا ہے ؎
بے وجہ عداوت کا سزا وار تو میں ہوں
اوروں پہ ہے کیوں ظلم گنہگار تو میں ہوں
قولہ… ’’اس دعوے کے لئے دو بینوں کا پتہ ونشان دے دیا گیا ہے۔‘‘
اقول… چونکہ جناب نے آگے تجارت کا ذکر کیا ہے۔ عاجز کو دو بنیوں کا شبہ ہوا خیر ہوئی کہ فوراً خیال میں آگیا۔ بینوا ہے۔ حضرت اگر اس بیان میں سچے ہو تو قربان علی صاحب لکھنوی کے ایک ہزار روپے تو مرزاقادیانی سے دلوا دیجئے کہ مجھے بھی دس ہزار کی امید ہو۔ اگر پوری نہ دلواسکو آدھے پونوں ہی پر معاملہ کرادیجئے۔ انکا اشتہار میں نے آپ کو بھیج دیا ہے۔ ورنہ اس بیجا تعلّی سے کیوں خلق کی نظر میں سبک ہوتے ہو۔ غیر قومیں تم پر ٹھٹھے مارتی ہیں اور تمہیں شرم نہیں آتی۔
قولہ… ’’یہ دس ہزار پانچ سو روپیہ ہوگیا۔ آپ کی تجارت کی بھی بڑی ترقی ہو جائے گی اور اگر اطمینان نہ ہو تو حضرت اقدس مرزاقادیانی تمسک لکھنے کو بھی کہتے ہیں۔ تمسک لکھوا لیجئے وہ ایک رئیس اور تعلقہ دار اور حارث آدمی ہیں۔ کسی اپنی جائیداد کو مکفول کر دیں گے۔‘‘
اقول… معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی کو ایک رئیس اور مالدار آدمی سمجھ کر آپ ان پر ایمان لائے ہیں اور اپنی طبیعت کے موافق عاجز کو بھی یہ لالچ دلاتے ہیں ۔ ’’اعوذ باﷲ السمیع العلیم من وسوسۃ الشیطان الرجیم‘‘ جناب من میں آپ کو مطلع کرتا ہوں کہ یہ سب مرزاقادیانی کے ڈھونگ اور ڈھکوسلے ہیں۔ اگر آپ سے مرزاقادیانی نے کوئی وعدہ کیا ہے تو آپ اپنا اطمینان کر لیجئے۔ ورنہ پچھتائے گا وہاں سوائے چکنی چپڑی باتوں کے کچھ نہیں اﷲتعالیٰ حکیم نورالدین کی عمر اور روزگار میں برکت دے کہ مبلغ بیس روپے ماہوار کے علاوہ سیکڑوں روپے سے مرزاقادیانی کی مدد کرتے ہیں۔ کیسا تعلقہ، کیسی جاگیر، کہاں کے رئیس، کیسے حارث یہ سب حارث ہی کی سی باتیں ہیں۔ ذرا (ازالہ اوہام) کو ملاحظہ فرمائیے مرزاقادیانی کیا لکھتے ہیں: ’’حبی