قولہ… ’’باوجود ممانعت اپنی سرکار دامت اقبالہا کیونکر قدم رکھ سکتا ہوں۔‘‘
اقول… مولوی صاحب جس سرکار عالیہ دامت حشمتہا کا نمک کھاتے ہو اس پر یہ تعصب کی بے جا تہمت لگاتے ہوئے آپ کو خدا کا خوف نہیں آتا اور دروغ گویم برروئے تو لاحول ولا قوۃ الا باﷲ سرکار عالیہ بھوپال دامت اقبالہا نے کب مجھ کو یا آپ کو ممانعت کی ہے اور کب ایسا ہوسکتا ہے کہ میں اس ریاست میں آزاد ہوں اور آپ نہیں؟ جس طرح تمام رعایا برٹش گورنمنٹ مذہبی معاملات میں آزاد ہے۔ اسی طرح تمام رعایا گورنمنٹ بھوپال لازال شمس العزوالاقبال بھی آزاد ہے۔ درباب آزادی مذہب رعایا ملکۂ انگلستان اور رعایا ملکۂ بھوپال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ آپ کا صاف اور صریح بہتان ہے۔ اپنی منعمہ دامت ملکہا پر اگر سچے ہو تو تصدیق کراؤ۔ یہ ایک بے جا اور سراسر غلط الزام ہے۔ اس رحم دل منصف مزاج گورنمنٹ بھوپال پر جس کا ایک عالم شکر گزار ہے اور یہ فقیر عاجز بھی اس سرکار سراپا عدل وداد کا ہر دم شکر گزار اور دعاگو ہے ؎
پس از صلوٰۃ وظائف بصد خشوع وخضوع
دعا جناب الٰہی میں ہے یہ صبح ومسا
یہ مہر طے کرے جب تک منازل فلکی
یہ ماہ اس سے کرے جب تلک کہ کسب ضیا
نماز تا کہ جماعت سے ہووے مسجد میں
زبانوں پر ہو رواں جب تلک کہ نام خدا
یہ سایہ قد پاک تو تا قیامت ہو
بفرق جملہ رعایا خصوص برسرما
قولہ… ’’جناب من میں آپ سے ہارا اور پھر ہارا۔‘‘
اقول… اے حضرت مولوی صاحب یہ مذہبی مذاکرہ ہے یا رندوں کا پھڑیا کلپ گراس گفتگو میں ہار جیت کا کیا کام؟ مگر جناب کی عادت کہاں جائے جو بات دل میں بسی ہوئی ہے۔ زبان پر بھی آئے اور آئے ؎
جو دل قمار خانہ میں بت سے لگا چکے
وہ کعبتیں چھوڑ کے کعبہ کو جا چکے
قولہ… ’’میدان اور اکھاڑوں کی یادوتذکار جناب کے ہی خیال میں بسی ہوئی ہے۔‘‘
اقول…ہاتھوں مہندی پیروں مہندی اپنے لچھن اوروں دیندی جناب عالی! جادو وہ جو سر پہ بولے جس کے خیال میں بسی ہوئی ہے۔ اس کی زبان پر بھی آیا۔
قولہ… ’’دہلی میں ایسے میدان اور اکھاڑے بہت کثرت سے ہوچکے ہیں۔‘‘
اقول… حضرت مولوی صاحب دہلی کو امرو ہے سے کیا نسبت وہاں کی پنہا دیوں کی نقل اور جہجر