مدعی بنانے میں مجھے اور کسی قاعدے کے بتانے کی ضرورت نہیں۔ مرزاقادیانی کا الہام آپ کے واسطے کافی ہے۔ دیکھو اشتہار مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو۔ پس جس قاعدہ سے مرزاقادیانی نے شیخ الکل سید نذیر حسین محدث کو مدعی بیان فرمایا ہے وہ جناب ملاحظہ کر لیں۔ یہی جواب کافی ہے۔
قولہ… ’’نمبر۶تا۹۔‘‘
اقول… اس کو بھی تأمل کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے اور عاجز کے خطوط غور سے دیکھئے۔ خاص کر اس خط کا جواب الجواب نمبر۵ اچھی طرح ملاحظہ ہو۔ بعد ملاحظہ کے آپ خود دوبارہ جواب کی تکلیف فرمائیں گے اس میں عاجز کو زیادہ گزارش کی ضرورت نہیں۔
قولہ… ’’مولوی محمد حسین کے خطاب میں عرض کیا تھا۔ نہ کہ جناب کے۔‘‘
اقول… ناظرین! اب میرے خط نمبر۲ میں مولوی صاحب کے فقرہ نمبر۱۰ کو اور میری اس جگہ کی گزارش کو اور مولوی صاحب کے اس جواب کو مکرر ملاحظہ فرما کر ذرا انصاف فرمائیں کہ مولوی صاحب کے جواب کو اس عاجز کی گزارش سے کچھ بھی تعلق ہے۔ عاجز کیا گذارش کرتا ہے مولوی صاحب کیا ارشاد فرماتے ہیں؟
قولہ… ’’لیکن بسبب اصرار باربار کے جناب کو بھی پوری آزادی دی جاتی ہے کہ جواب اعلام الناس کا تحریر کرائیں اور ضرور تحریر کرائیں۔‘‘
اقول… حضرات ناظرین اب مولوی صاحب سے تو انصاف کی امید معلوم؟ آپ ہی انصاف کریں اور عنقریب جواب اعلام الناس بھی شائع ہوا جاتا ہے۔ پھر دیکھیں مولوی صاحب کیا فرماتے ہیں؟
قولہ… ’’لیکن جو کوئی صاحب بھوپال میں تشریف لا کر اس فقیر کی آبروریزی کریں۔‘‘
اقول… مولوی صاحب نے پھر ڈیڑھ صفحہ اس شکایت بے جا سے بھردیا۔ مگر میں اس کے جواب میں سوا اس کے اور کچھ نہیں عرض کرتا۔ ’’واﷲ المستعان علی ماتصفون‘‘ مولوی صاحب جو لوگ آپ کی باتوں کو بلاتحقیق باور کر لیں گے۔ ان کے سامنے تو آپ نے انکار مناظرہ کی ایک صورت دکھادی۔ مگر جب یہ معاملہ علیم وخبیر کے سامنے پیش ہوگا۔ وہاں کے واسطے بھی کوئی جواب سوچ لیجئے۔ وہاں کیا جواب دو گے۔
برائی میں ہماری وہ اگر اپنا بھلا سمجھے۔۔۔۔برا سمجھے برا سمجھے برا سمجھے برا سمجھے