ایک دم عمر طبیعی ہے یہاں مثل حباب
رکھ مکدر بس اے یار نہ اتنا ہم کو
قولہ… ’’منبروں پر بیٹھ کر مجالس وعظ میں غیبت سب وشتم آبروریزی مؤمن مسلمان کی کرنے سے کچھ کامیابی نہ ہوگی۔‘‘
اقول… یہ بات تو درحقیقت ٹھیک ہے۔ لیکن اس کی نسبت عاجز کی طرف غلط ہے۔ اگر ذرا بھی غور کیجئے گا تو جناب کو معلوم ہو جائے گا کہ اس کا مصداق کون ہے، عاجز یا جناب؟ کیونکہ میں بحلف عرض کر چکا ہوں مگر آپ بار بار یہ بیجا شکایت جو محض بہتان ہے کئے جاتے ہیں۔ اب اس کا فیصلہ انشاء اﷲ تعالیٰ فیصلے کے دن ہو جائے گا۔ ’’ترکت حسابی لیوم الحساب‘‘ مگر بہتر ہے کہ آپ غصہ سے درگزر کر کے کچھ عاجز کی بھی سنیں ؎
پند گو اب تو ہی فرما کس کو سودا ہے یہ کون
اور کی سنتا نہیں اپنی ہی کہتا جائے ہے
قولہ… ’’اب چند گزارش دربارہ ادّلہ یازدہ گا نہ جناب کے مختصر مختصر عرض کرتا ہوں۔‘‘
اقول… بہتر ہے عاجز بھی اسی کو پسند کرتا ہے۔
قولہ… ’’نمبر:۱،۴ الفاظ اعلام اور دعوے میں منجملہ نسبت اربعہ کے کون سی نسبت ہے۔‘‘
اقول… نمبر۱،۴ بریں عقل ودانش بباید گریست۔ جناب مولوی صاحب اگر حضور گرہ کی نہیں رکھتے تو جواب کے وقت تھوڑی دیر کے لئے کسی سے ادھار ہی لے لیا کیجئے کہ دوسرے کی بات تو سمجھ میں آجائے۔ عاجز نے اعلام اور دعوے میں کب نسبت مساوات ولفظ اعلام سے آپ کا دعویٰ ثابت کیا ہے۔ بلکہ نمبر۱،۴ تک ثبوت خطاب عام میں نقل ہوئے ہیں اور وہ اظہر من الشمس ہے۔ نہ ثبوت دعویٰ میں۔ لہٰذا گزارش ہے کہ نمبر۱،۲،۳،۴ واپس لے کر اپنے اوّل اور عاجز کے دوسرے خط کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیے اور اب سوچ سمجھ کر جواب عنایت فرمائیے۔
قولہ… ’’یہ خطاب کس سے ہے آپ سے یا مولوی محمد حسین صاحب سے پھر اس میں دعویٰ کہاں ہے۔‘‘
اقول… جب خطاب عام کا آپ اقرار کر چکے تو اس باب میں اب زیادہ گفتگو کی ضرورت نہیں۔ علاوہ اس کے احسن المناظرین ہونے کا تو آپ کا اقرار ہی ہے تو مولوی محمد حسین صاحب کی کیا خصوصیت ہے؟ جو جویائے حق آپ کے پاس آئے، آپ کو اس کی طمانیت لازم ہے اور