اور مولوی محمد حسین صاحب پر بھی آپ کی عنایت تو ہے مگر ایسی ؎
اب انہیں لکھتے ہو تم خط میں سراسر دشمن
جن کو لکھتے تھے سدا یار سراپا اخلاص
قولہ… ’’بحکم آنکہ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔ آپ اصرار ہی فرماتے ہیں۔‘‘
اقول… مولوی صاحب مہمان بلایا ہوا پیچھے لگایا ہوا ہے اب آپ انکار کریں یا نہ مانیں تو یہ امر دیگر ہے۔ کیا آپ کا اشتہار نسبت علماء امصار ودیار نہیں ہے اور کیا آپ کے اعلام میں خطاب عام نہیں ہے۔ مصرع
انصاف کیجئے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم
قولہ… ’’کیا جنگ وجدل سب وشتم ہمز ولمز قتل ناحق کا نام مباحثہ ہے۔‘‘
اقول… ؎
خیر ہے کس نے کہا شور قیامت تم کونالہ ہائے صحری دھوم مجاتے کیوں
مولوی صاحب! آپ کو اﷲتعالیٰ کا خوف نہیں ہے۔ آپ میری طرف ایسے جرم کی نسبت کرتے ہوئے خدا سے نہیں ڈرتے۔ جس کا واﷲ میں مکتسب ومرتکب نہیں ہوں۔ ’’ان الذین یؤذون المؤمنین والمؤمنات بغیر ماکتسبوا فقد احتملوا بہتاناً واثماً مبینا‘‘ کی وعید آپ کے دل سے بالکل نکل گئی ہے۔ اگر کسی نے آپ سے کہا ہے وہ آپ کا اور میرا دشمن جھوٹا ہے۔ آپ کو بھی بغیر تحقیق کے اس قدر خلاف واقع بیان کرنا بالکل نازیبا ہے ؎
کہے جو عدو سچ نہ جانا کرو
عبث اب نہ مجھ سے بہانہ کرو
قولہ… ’’جس امر سے احقر کو فراغت ہو چکی ہے پھر دوبارہ اس امر کے واسطے کیوں طلب کیا جاتا ہوں۔‘‘
اقول… فراغت ہو چکی تھی تو آخر میں اشتہار کیوں دئیے۔ اس وقت سمجھے نہ تھے یا اس وقت بھول گئے۔ دوسری وجہ آپ کے بلانے کی یہ بھی ہے کہ تصنیف رامصنف نیکو کند بیان مولوی صاحب خود کردہ راعلاجے نیست اگر جناب کی ایسی ہلکی طبیعت تھی۔ تو ہرگز اشتہار دینا نہ چاہئے تھا ؎
ہم تو کہتے تھے نہ ہم راہ کسی کے لگ چل
اب بھلا ہم ہوئے رسوا سربازار کہ تو