ناظرین! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ احسن المناظرین صاحب کی تحریر کا بڑا حصہ صرف بے جا اور خلاف واقع اور غلط شکایت یا ظرافت میں اور بہت ہی کم نادرست اور مہمل مطلب میں ضائع ہوا ہے۔ اگر مجھ کو یہ خیال نہ ہوتا کہ اکثر احباب کو اس کے جواب کا انتظار ہو گا تو ہرگز اپنی اوقات عزیز کو اس بیکار اور بے سود تقریر کے جواب میں ضائع نہ کرتا۔ بات یہ ہے کہ لمبے چوڑے اشتہار دے کر عوام کو دام میں لانے کے لئے مرزاقادیانی کی یہ ایک چال ہے اور یہی طریقہ حضرت (احسن امروہی قادیانی) نے بھی اختیار کیا ہے۔ ورنہ کیسا مباحثہ تقریری اور کیسا تحریری تقریری کا تو حوصلہ ہی مشکل ہے اور تحریر کا حال بھی ظاہر ہے ؎
اٹھ جا کہاں تلک کوئی باتیں اٹھائے گاناصح تو خود غلط تری گفتار ہے غلط
قولہ… ’’آگے رہا تحریری مباحثہ سو وہ بھی ہیچمدان جناب سے کرنا نہیں چاہتا مولوی محمد حسین صاحب لاہوری احقر کے پورے مخاطب ہیں اور نیز مولانا محمد بشیر صاحب درخواست مکرر فرمارہے ہیں۔ لیکن یہ ہیچمدان پورے طور پر راضی نہیں ہوا کچھ نیم راضی سا ہوگیا۔‘‘
اقول… مولوی صاحب عاجز تو آپ کے اشتہار کے موافق تقریر مع تحریر کے لئے حاضر ہوا تھا یہ علم نہ ہوا کہ آپ کے اشتہار بھی مثل اشتہارات مرزا صاحب کے محض کاغذی گھوڑے ہیں۔ جو ہوا باندھنے کی غرض سے ہوا پر اڑا دئیے جاتے ہیں ورنہ مباحثہ سے آپ صاحبوں کو کیا کام۔ مگر یہ یاد رہے کہ آپ کا خطاب عام ثابت ہے اور یہ فرمانا آپ کا کہ پورے مخاطب اس کے مولوی محمد حسین صاحب ہیں۔ کون جان سکتا ہے آپ کی نیت کی کس کو خبر ہے؟ ہاں اس قدر عرض خدمت عالی میں ہے۔ اگر قبول ہو جائے کہ مولوی محمد حسین صاحب پر اس وجہ سے کہ وہ یہاں نہیں ہیں اور ان کا آنا بھی مشکل ہے پوری عنایت ہے، تو عاجز چونکہ حضور کے پاس حاضر وموجود ہے۔ ادھوری تو اس پر بھی عنایت ہونی چاہئے ؎
گل پھیکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
اور چونکہ مولانا محمد بشیر صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ بھی یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ اس لئے باوجود مکرر درخواست کے وہ بھی ناکام ہی رہتے معلوم ہوتے ہیں ؎
نہ پہچانو مجھے گر آپ تو کیا
مگر میں آپ کو پہچانتا ہوں