قلوبہم الرعب‘‘ ہیبت حق است ایں صاحب دلق نیست اور اگر کوئی فوج بھی میرے ساتھ آپ کو دکھائی دیتی ہے اور آپ اس بیان میں سچے ہیں تو وہ ملائکہ منزلیں ہوں گے۔ جن کا واﷲ عاجز کو علم نہیں ہے اور یہ عاجز ایک حقیر فقیر مسافر ہے نہ یہ مسکین صاحب اوج، نہ اس کے پاس فوج ظفر موج، ہاں سیف لسانی اور فوج حق بیانی نعمت خداداد ہے والللّٰہ الحمد ؎
دیکھ کر سیف زبانی میری
معترض دل میں کٹا کرتے ہیں
قولہ… ’’تقریری مباحثہ ہیچمدان کو اب کسی سے منظور نہیں۔‘‘
اقول… حضور میں کب اور کس دن یہ جرأت ہوئی تھی کہ کسی سے زبانی گفتگو کی ہو جواب ارشاد ہوا کہ منظور نہیں یہ نامنظوری تو حضور کے حق میں ازلی ابدی اور امر فطری ہے۔
قولہ… ’’کیونکہ بسبب شیوع تعصبات نفسانیہ کی تہذیب بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ بلکہ منجر بتباغض وتحاسد ہو جاتا ہے۔ الیٰ من جرب المجرب فقد حلت بہ الندامۃ!‘‘
اقول… ذرا اس وقت سچ بولئے گا حضور کو کب اور کہاں تقریری مباحثہ کا اتفاق ہوا؟ جو تجربہ کار ہوگئے۔ خاص کر اس اشتہار کے بعد جو (اعلام الناس حصہ ۲ ص۹۹،۱۰۰) میں ہے۔ کبھی کسی مجمع میں گفتگو کا اتفاق ہوا ہو تو اس سے عاجز کو بھی مطلع فرمادیجئے کہ کہاں ایسا مجمع ہوا، اور کس سے جناب کی گفتگو ہوئی اور کیا خرابی اس میں پیش آئی؟ اور اس عاجز کو تو بارہا یہ موقع پیش آیا ہے اور سال گزشتہ میں بھی چار ماہ تک ہفتہ وار پادری جی اے نصرائی صاحب سے گفتگو ہوتی رہی جو اپنے مذہب کا ایک جلیل القدر فاضل ہے اور ہر جلسہ میں تخمیناً تین چار ہزار آدمی ہوتے تھے اور اگرچہ یورپین افسر بھی دوستانہ طور پر گفتگو سننے کو کئی ایک آجاتے تھے۔ مگر پولیس وغیرہ کا کوئی انتظام نہ تھا اور کبھی کسی جلسے میں باہم مناظرہ کی بدمزگی تک نہ ہوئی۔ جھگڑا اور فساد تو کیسا؟ اور اسی طرح بمبئی اور مدراس وغیرہ بڑے بڑے شہروں بڑے بڑے مجمعوں میں عاجز کو گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ کبھی درشتی تک کی نوبت نہیں آئی اور فساد تو کیسا؟ ہاں آپ اپنی حالت کے موافق جو کچھ چاہیں خیال فرمالیں۔ مگر عاجز کا تجربہ تو اس کے خلاف ہے۔ جناب مولوی صاحب یہ تو باتیں ہیں صاف یہ ہے کہ کبھی جناب کو ایسا اتفاق ہی نہیں ہوا۔ ہمیشہ گھر میں بیٹھے باتیں بنایا کرتے ہو اس وقت یہ حیلے گھڑنے اور بہانے کرنے لگے ؎
کیسے گلے رقیب کے کیا طعن اقربا
تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں