حضرت مولوی صاحب ذرا سنبھل اور سمجھ کر فرمائیے اور کوئی اور ہوتا تو یوں کہتا ؎
حوصلہ تنگ ہے یہاں بیہودہ گوئی تاچند
بس زبان کیجئے کوتاہ مجھے تاب نہیں
جناب من! اگر یہ درخواست محض بوجہ امتحان علم یا تعلم ہے تو یہ شرط خلاف ہے اور اگر بلانے میں جناب کو خلاف اس کے کوئی اور علت ہے۔ جس کے لئے شب اور تنہائی کی شرط ضروری ہے تو اس عاجز کو معاف فرمایا جائے۔ ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ مولوی صاحب اس بحث میں یہ خباثت بے محل اور بے موقع ہے ؎
کچھ مناسب نہیں ہے کیا کہئے
جی میں جو کچھ کہ اپنے آتی ہے
لیکن یہ عاجز کمال ادب اور نہایت عجز سے عرض کرتا ہے کہ آپ اس سے باز رہیں اور اگر جناب نے اب کبھی بے محل اپنی جبو کھولی تو یاد رہے کہ پاس ولحاظ خردی وبزرگی ایک طرف پھر کمی نہ ہوگی ؎
ہم رونے پہ آجاویں تو دریا ہی بہا دیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا
مکرر عرض کرتا ہوں کہ آپ کی اس سفید ریش پر یہ خباثت بے زیب ہے ؎
تو پیر شدی حافظ از میکدہ بیرون آ
رندی وخراباتی درعہد شباب اولیٰ
قولہ… ’’کیونکہ اگر اس جماعت فوج اور گروہ موج کے ساتھ ورود ہوگا تو اس ناچیز پر اس قدر ہر غالب ہو جاوے گا کہ ان کی اوج موج کو دیکھ کر مجھ سے پڑھا بھی نہ جاوے گا۔‘‘
اقول… کیوں جناب مولوی صاحب ایک عاجز مسافر پر یہ باتیں بناتے ہو اور خدا سے نہیں ڈرتے۔ ڈرو اس خدا سے جس کا یہ ارشاد ہے ’’مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید‘‘ میں نہیں سمجھتا کہ اس گفتار سے کیا فائدہ۔ آپ کے سمجھ میں آیا ہے اور آپ کے جی میں کیا سمایا ہے ؎
وہ چال چلو جس سے کہ دنیا رہے قائم
کچھ فرض یہی ہے کہ قیامت ہی بپا ہو
اور اگر واقعی جناب پر کوئی خوف غالب ہوگیا ہے تو یہ منجانب اﷲ ہے۔ ’’وقذف فی