ہر بات ان کی طعنہ وہر اک سخن ہے رمز
ہر آن ہے کنایہ وہر دم ٹھٹھولیاں
اور جناب کے احسن المناظرین ہونے کی حقیقت تو پہلے ہی کھل چکی ہے۔ اب مرد میدان بنا اور مواجہ میں گفتگو کے لئے آنا معلوم کیوں اس واسطے ؎
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
وہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
قولہ… ’’سب سے اوّل کوئی رسالہ صغیر یا کبیر فن مناظرہ کا ہیچمدان کو پڑھا دیا جاوے۔‘‘
اقول… اگرچہ مسافر اور کثیر الاشتغال ہوں۔ مگر آپ کی درخواست منظور جناب مولوی صاحب کسی طرح ہو مجھے تو آپ سے ایک مرتبہ ملنا ہے۔ استاذی سے، شاگردی سے، دوستی سے، مہربانی سے، عنایت سے، اخلاق سے، کچ اخلاقی سے ایک مرتبہ ملئے۔ اگر جناب کا یہ خیال ہے۔ اسی طرح جب اور جس وقت جی چاہے بے تأمل اور بے تکلف تشریف لائے ؎
اس قدر آہ کیا عشق نے رنجور ہمیں
دیکھنا ایک نظر تم کو ہے منظور ہمیں
اس واسطے کہ ؎
خط جادہ ہوں یا میں نقش پاہوں
غرض افتاد گان کا رہ نما ہوں
مگر میں خوب سمجھے ہوئے ہوں ۔یہ سب آپ کی باتیں ہیں۔ آپ کب تشریف لاتے ہیں ؎
نہ پہچانو مجھے گر آپ تو کیا
مگر میں آپ کو پہچانتا ہوں
قولہ… ’’مگر شرط یہ ہے کہ شب کو مکان احقر پر آپ تشریف لایا کیجئے اور سب نہ کو لایا کیجئے۔ یعنی آپ تنہاء آویں بہ تن ہانہ آویں۔‘‘
اقول… مجھے ڈر ہے ؎
کہیں میری زبان نہ کھل جائے۔۔۔،،۔۔اب وہ باتیں بہتے بنانے لگے