نمبر:۱… احسن المناظرین صاحب کے خط کی اوّل عبارت۔
’’کیونکہ احقر نے تو کسی تحریر میں آپ کو مخاطب نہیں کیا اور نہ احقر کسی امر کا مدعی۔‘‘
نمبر:۲… عاجز کے دوسرے خط کی وہ سرخی جس کے تحت میں احسن المناظرین صاحب کے گیارہ قول نقل کئے ہیں اور جناب موصوف نے خطاب عام کے لفظ کو قصداً یا سہواً نظر انداز کر کے دعویٰ کا لفظ پکڑ لیا ہے۔
نزیل بھوپال مولوی محمد احسن صاحب احسن المناظرین کے وہ اقوال جن سے ان کا دعویٰ اور خطاب عام ثابت ہے۔
جناب مولوی صاحب اب حضور سمجھے اور یاد آیا کہ یہ ایک اور ایک گیارہ دلائل حضور کے مدعی ہونے کے نہ تھے۔ بلکہ ان سے جناب کا خطاب عام یاد دلایا تھا اور ثبوت دعویٰ میں تو لفظ دعویٰ کا موجود ہے۔ جس کا جناب کو بھی اقرار کرنا پڑا۔ شاید حضور دوبارہ بھی بھول گئے اور ابھی تو اور بھولیئے گا اور ضرور بھولئے گا۔ کیونکہ دشمنوں کا حافظہ ہی صحیح نہیں رہا۔ جناب عالی بادام کا حریرہ پیجئے یا توبہ کیجئے اور توبہ کا لفظ عاجز نے بے ادبی کی راہ سے عرض نہیں کیا ہے۔ سوء حافظہ کا یہ بھی ایک علاج ہے۔ عاجز اپنے حق میں بھی کثرت استغفار کو بہتر جانتا ہے ؎
شکوت الیٰ وکیع سوء حفظے
فاوصانی الیٰ ترک المعاصے
لان العلم فضل من الہ
وفضل اﷲ لا یعطے العاص
قولہ… ’’لہٰذا وہ سب دلائل اس عاجز کے قلب وجگر میں مثل زخم کاری کے اثر کر گئے۔ اب ان زخموں کو اخفا کرتا رہتا ہوں اور کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔ کیوں ظاہر نہیں کرتا۔ اس لئے ؎
نظر لگے نہ کہیں ان کے دست وبازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں‘‘
اقول… ناظرین! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مولوی صاحب کس قدر مطلب سے الگ الگ عبث اور بے سود باتوں میں طول دیتے چلے جاتے ہیں اور چونکہ خدام والا کی یہ فطرت ہے۔ اسی لئے کچھ سوچ سمجھ کر عام جلسہ میں گفتگو سے انکار فرمادیا کہ مواجہ میں یہ بیکار طعن وطنزیہ اشارے یہ ٹھٹول جناب کیونکر کر سکتے تھے ؎