اور اگر بغیر ملے بے سنے بلا تحقیق خفا ہونا ہے ہو لیجئے ؎
گر تجھے قتل ہے منظور چل آ بسم اﷲ
تیغ موجود ہے حاضر ہے گلا بسم اﷲ
ہم تو حاضر ہیں نہ کرتے ہیں ترا حکم عدول
خون دل تو جو پلاتا ہے پلا بسم اﷲ
؎
سر نمی تابم زشمشیر حبیب
ہرچہ آید بر سر من یا نصیب
قولہ… ’’جو دلائل جناب والا نے اس عاجز کے مدعی ہونے کے ایک اور ایک گیارہ تحریر فرمائے ہیں ان کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ خدام جناب کو فن مناظرہ میں بڑا دخل ہے۔‘‘
اقول… جناب مولوی صاحب حضور احسن المناظرین ہیں۔ عاجز کی کیا لیاقت کہ جناب کے سامنے مناظرہ کا نام لے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اوّل تو فرط تعلّی اور افراط فخر سے درگاہ والا میں عاجز کے کلام کو وقعت ہی کہاں جو توجہ ہو ہاں کس بشنودیا نشنود من گفتگوئے میکنم کے طور پر محض بہ نیت اظہار حق عرض کئے دیتا ہوں۔ آپ سنیں یا نہ سنیں ؎
بات میری نہیں سنتے جو اکیلے مل کے
ایسے ہی ڈھب کی سناؤں کہ سنو اور سنو
دوسرے یہ کہ افراط محبت اور فرط غضب ایسی بلا ہے جس سے آدمی بدحواس بے بہرہ بلکہ گونگا اور بہرا ہو جاتا ہے۔ ’’حبک الشیٔ یعمے ویصم‘‘ اور جناب میں اس وقت یہ دونوں صفتیں موجود ہیں۔ جیسے مرزاقادیانی پر افراط محبت کی نظر ہے۔ ویسے ہی عاجز پر فرط غضب،، ایسی حالت میں اگر خدام والا میری تحریر کو نہ سمجھے یا اپنے لکھے کو بھول گئے تو نہ مقام شکایت نہ محل استعجاب۔ جناب کا مقام ہی یہ ٹھہرا۔ لہٰذا جناب کی اور اپنی تحریر کو دوبارہ نقل کر کے نہایت ہی عاجزی سے عرض کرتا ہوں کہ حواسوں کو درست کر کے دوبارہ ملاحظہ فرمائیے۔ اگر طبیعت درست ہوئی تو جناب کو خود ہی ارشاد فرمانا ہوگا کہ میں اپنے جوابوں کو واپس لیتا ہوں اور ضرور مکرر جواب کی تکلیف کرنی ہوگی۔ مگر معاف فرمائیے کہ اس مکرر تکلیف دہی میں عاجز کی کوئی خطا نہیں۔ حضور کے حافظہ کی خطاء اور حواس کا قصور ہے۔
یہ سراپا شوخے دزد حنا تھی میں نہ تھا