قولہ… ’’جیسا کہ داب مناظرین دین کا ہے۔‘‘
اقول… ہاں جناب مولوی صاحب دینداری اس کا نام ہے کہ اپنی طرف سے بہتان گھڑ کے خلق میں اپنے ایک مؤمن بھائی کو بدنام کرے۔ بلا تحقیق بدظن ہو جائے۔ گھر میں بیٹھا باتیں بنائے۔ دل کے بخار نکالے ہرگز تحقیق نہ کرے۔ سبحان اﷲ۔ یہی تو داب مناظرین دین اور اس پر عمل کرنا بھی جناب کا حصہ ہے۔ واقعی بات گھڑنے میں تو مرزاقادیانی کا اور آپ کا جوڑ خوب ملا ؎
کیا لاجواب جوڑ خدا نے ملائے ہیں
جیسی ہے روح ویسے فرشتے بھی پائے ہیں
قولہ… ’’لہٰذا اس عاجز نے اپنے دل نیاز منزل کو بہت سا صبر کر کر سنبھالا اور تھاما۔‘‘
اقول… مولوی صاحب میں نہیں جانتا وہ کون سے جناب کے دشمنوں کے بیری تھے۔ جنہوں نے محض بے اصل خبریں سنا کر جناب کو اس قدر رنج میں ڈالا کہ حضور کے دماغ میں حواس تحقیق ہی باقی نہ رہے۔ اے جناب مولوی صاحب میں نے جس وعظ میں ازالہ اوہام اور اعلام الناس کے چند مقام سنائے ہیں۔ خوب جتلا جتلا کر اوّل یہ کہہ دیا کہ میں اپنی طرف سے ایک لفظ نہ کہوں گا اور ایسا ہی کیا اور میں شرعی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے نہ جناب کو نہ جناب کے مسیح مرزاقادیانی کو کسی خلوت وجلوت میں کبھی لفظ کافر یا مشرک یا کوئی لفظ گندہ نہیں کہا اور نہ کہتا ہوں۔ ہاں اگر نقل عبارت بھی گناہ ہے تو اس میں اوّل مرزاقادیانی کا حصہ ہے۔ پھر جناب کا، بعد عاجز کا بہرصورت عاجز تو پیچھے پیچھے ہے۔ مولوی صاحب غضب تو یہ ہے کہ نہ مجھے بلاتے ہو نہ آپ تشریف لاتے ہو۔ جس طرح بے دیکھے، بے ملے، بغیر تحقیق مرزاقادیانی کے معتقد ہوگئے۔ اسی طرح عاجز سے ناراض ہوگئے۔ میں اس قدر سفر طے کر کے آیا خدا کے واسطے دو چار قدم کی تکلیف تو آپ بھی گوارا فرمائیں۔ اپنی کہیں میری سنیں ؎
میرے قاصد سے ذرا میری کہانی سن تو لو
طبع کرنا پیچھے خط پہلے زبانی سن تو لو
داد میری جانفشانی کی نہیں دیتے نہ دو
پر کروں جو کچھ بیاں میں جانفشانی سن تو لو
جانتا ہوں میں کہ ہو خبروں کے تم بھی رازدار
پر کہوں میں بھی جو کچھ راز نہانی سن تو لو