ہم کہے دیتے ہیں زحمت خردہ ہے
دل تو حاضر ہے وبے افسردہ ہے
رہا یہ ارشاد جناب کا کہ: ’’پھر اگر خلوت سے کام نہ چلے تو جلسۂ جلوت بھی کیا جاتا۔ اس کے جواب میں عاجز پھر (اعلام الناس حصہ۲ ص۹۹،۱۰۰) کو پیش کرتا ہے اور بجواب شرط ضمانت پچاس روپے کی المضاعف جناب مولانا صاحب کے پاس نقد رکھوادیتا ہے ؎
میرے کہنے کا نہ باور ہو نوشتہ لے لو
ضامن انسان کی عوض چاہو فرشتہ لے لو
قولہ… ’’مثل مشہور ہے۔ اوّل پند بعدہ بند۔‘‘
اقول… حضرت کو اگر واقعی یہ منظور ہے کہ عاجز تنہا حاضر ہوکر کچھ عرض کرے تو اب کیا گیا ہے۔ جب اور جس وقت ارشاد ہو اور یہ دریافت بھی اس لئے ہے کہ عاجز نے کبھی ملنا چاہا تو حضور نے وقت ٹال دیا اور تحریر بھی فرمایا ہے کہ مجھے فرصت کم ہے۔ ورنہ بے تأمل حاضر ہوتا ؎
بگڑتے ہو کیوں اب بھی کہتا ہوں میںعیاں صلح پھر کس کی چتون سے ہے
قولہ… ’’تو جناب والا ان رسائل کا جواب شافی وکافی مشتہر فرماتے۔‘‘
اقول… بہتر جناب اعلیٰ جواب تیار ہے۔ اب طبع بھی ہواجاتا ہے۔ مگر عاجز نے یہ سنا ہوا تھا کہ ’’تصنیف رامصنف نیکو کندبیاں‘‘ اسی شوق میں یہاں چلا آیا اور اب تو آگیا۔ اگر آپ مہربانی فرمائیں اور نامہربانی کو دل سے اٹھائیں عاجز نے پہلے بھی عرض کیا تھا اور اب مکرر عرض کرتا ہوں کہ کسی روز آپ تشریف لے آئیں یا عاجز کو بلالیں۔ مگر جناب نے توجہ نہ فرمائی۔ یہ تو عاجز پر کمال نامہربانی ہے۔ جیسے ہر طرح کی آزادی عطاء فرمانا کمال مہربانی تھی۔ افسوس یا وہ عنایت یا یہ عتاب ؎
اس قدر تھا یا کرم یا ظلم رانی اس قدر
مہربانی اس قدر نامہربانی اس قدر
یا وہ عنایت اوروں ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور عاجز اس سے محروم جناب مولوی صاحب ایسا نہ چاہے جناب تو مسیح صاحب کے پیرو ہیں۔ جناب کو تو سب کوایک آنکھ دیکھنا چاہئے نہ یہ کسی سے کچھ برتاؤ اور کسی سے کچھ ؎
غیرے نے باتیں جو کچھ کیں تو نے وہ سب مانیاں
اور ہم سے تیری اے لالہ یہ نافرمانیاں