اقول… خیر ہوگئی حضرت کے وہ اشعار جن کو میں نے اپنے خط میں لکھا ہے آپ کے طبع زاد نہ تھے ورنہ سخت نالائق سمجھا جاتا اور شاید مجھ پر حق تلفی کا دعویٰ ہو جاتا اور ہمہ دانی تو عاجز کی اس پر کھل گئی کہ آپ کے اعلام الناس میں وہ اشعار مندرج تھے گو کسی کے تھے اور جناب کو بھی کوئی خاص حق ان کے مندرج کرنے کا ایسا حاصل نہ تھا جو اس عاجز کو نہیں اور یہ تو ماشاء اﷲ اگر آپ سمجھ بھی گئے ہوں گے تو کیوں فرمانے لگے کہ اس میں رمز کیا تھی۔ جو وہی اشعار عاجز نے نقل کئے اور بعد نقل اکثر جگہ نشان بھی بتادیا کہ اعلام الناس صفحہ فلاں اور پھر اس پر یہ فخر یہ اظہار کہ احقر کو اس کے ساتھ فخر نہیں۔ اگر فخر نہ ہوتا تو اس کا ذکر ہی کیا ضرور؟ اور اس پر طرہ یہ کہ تنبیہہ کے ساتھ۔ مولوی صاحب یہ فخر وتعلّی حضور کو مبارک ؎ مولوی صاحب فرشتہ ہو تو ہو
آدمی ہونا بہت دشوار ہے
کیوں جناب مولوی صاحب اگر یہ قصور ہے تو جناب نے تاریخ قوم برامکہ کا نام ’’اعلام الناس‘‘ کیوں غصب کر لیا اور آپ کے مرزاقادیانی نے مولوی رحمت اﷲ کی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ کا نام کیوں چھین لیا اور آپ نے جو اشعار مناجات عربی لکھے ہیں وہ تو فرمائیے کس کے ہیں؟ اے جناب مولوی صاحب اس کا مجھے جواب تو دو کہ یہ کیا لکھا اور کیوں اپنے اور میرے وقت کا اس تحریر میں ناحق خون کیا۔ مولوی صاحب بات یہ ہے مصرعہ
آدمیت اور شئے ہے علم ہے کچھ اور چیز
قولہ… ’’نامۂ نامی ہمدست چند صاحبان اہل علم مع بعض صاحبان اہل قلم صادر ہوا۔‘‘
اقول… جناب مولوی صاحب عاجز نے اہل علم کو جناب کی خدمت میں بھیجا اور نہ کسی اہل قلم کو اور نہ عاجز خود صاحب چشم جو اس کے پاس اہل علم واہل قلم ہوں۔ جناب مولوی نواب سید علی حسن خان صاحب زید مجدہم کے ایک خادم کو خط دے کر آپ کے پاس بھیجا تھا۔ جس کو آپ نے کسی حیثیت سے شاید اہل علم بنا دیا اور کسی حیثیت سے اہل قلم، نہ وہ غریب اہل قلم، نہ صاحب علم، ایسی باتوں میں وقت ضائع کرنا نہیں معلوم جناب کو کیوں پسند خاطر ہے؟ وہ بات بنا کر چند الزام عاجز پر گھڑ دئیے یہ بات کہہ کر چند طعن کر دئیے نہ اس سے کچھ فائدہ نہ اس سے کچھ حاصل۔ جناب کو چونکہ گھر میں زیادہ تشریف رکھنے کی عادت ہے۔ یہی علت اس طعنے دینے کی معلوم ہوتی ہے۔ مگر عاجز اس کا جواب جناب کو کیا دے کہ جناب بزرگ اور عاجز خرد اور اصل بات یہ ہے کہ طبیعت ہی اس کے مناسب نہیں ؎