علاج میرے پاس کچھ نہیں جو لوگ مفتری علی اﷲ والرسول ہیں۔ اگر عاجز پر افتراء کریں کیا عجب ہے ؎
قیل ان الا لہ ذو ولد
قیل ان الرسول قد کہنامانجا اﷲ والرسول معاً
من لسان الوری فکیف انا
ہاں اگر جناب کو تحقیق منظور ہے جامع مسجد میں جمعہ پڑھئے بعد نماز دریافت فرمائیے۔ اگر ہزاروں میں سے دو چار معتبر آدمی بھی آپ کے ارشاد کو درست کہہ دیں گے تو میں ملزم۔ آپ کو تشریف لانے میں کچھ عذر ہو تو اپنے کسی معتمد کو بھیج دیجئے وہ تحقیق کر لے۔ میں نے ایک لفظ بھی آپ کی نسبت اہانت کا نہیں کہا۔ ہاں اگر آپ کا ہر بات میں یہی طریق ہے کہ بلا تحقیق جو جس نے کہا مان لیا تو میری عرض جس کو میں بعد تحقیق منوانا چاہتا ہوں۔ آپ کب مانین گے۔ مولوی صاحب! تحقیق کرو اﷲتعالیٰ سے ڈرو ؎
کس سے بگڑے ہو کس پہ غصہ ہے
کس پہ ہوتے ہو تم خفا صاحب
کس نے دیں تم کو گالیاں حضرت
کون کہتا ہے ناروا صاحب
بلاتحقیق یہ افتراء آپ کرتے ہیں یا میں؟ ہاں یہ بات بنا کر عاجز کو بدنام کرنا حضور کو منظور ہو تو کیجئے۔ ’’واﷲ المستعان علے ما تصفون‘‘ قیامت قریب ہے اور قاضی خبیر وبصیر ’’وافوض امری الیٰ اﷲ ان اﷲ بصیر بالعباد‘‘ میں آپ کو کچھ نہیں کہتا اور اس کا جواب کچھ نہیں دیتا ؎
ہوں آپ کے کتنے ہی ستم اف نہ کریں گے
چپ بیٹھ کے ہم کھائیں گے غم اف نہ کریں گے
سر تک بھی اگر کاٹ کے پھینکو گے ہمارا
سچ کہتے ہیں واﷲ کہ ہم اف نہ کریں گے
قولہ… ’’تنبیہہ! مولوی صاحب نے جس قدر اشعار اردو لکھے ہیں وہ سب (میرے) اعلام الناس میں مندرج ہوچکے ہیں۔ احقر کو اس کے ساتھ کچھ فخر نہیں۔ یہاں پر مولوی صاحب کی ہمہ دانی جتانی منظور تھی۔ پس :‘‘