اللام بالنون الا فی ضرورۃ الشعر واذا لم یدخل اللام علے نفس المضارع یکتفیٰ باللام نحو لئن متم او قتلتم لالی اﷲ تحشرون وان کان مضارعا حالیا یکون باللام من غیر النون‘‘ اب تو خدام والا کو خود بھی اپنے فہم کی رسائی اور لیاقت علمی اور کمال تدبر کا علم ہوگیا ہوگا۔ لہٰذا عاجز نہایت عجز سے عرض کرتاہے کہ کچھ جواب عنایت ہو۔ مگر ایسا نہیں کہ مصرعہ
غوطہ ڈفالی کھاتا پھرے جیسے تال میں
جناب مولوی صاحب یہ عاجز ہرگز حضور کے علم وتبحر کو نہیں پہنچ سکتا۔ مگر اﷲتعالیٰ چاہے تو کوئی بات سمجھا دے ؎
دیکھ چھوٹوں کو ہے خدا بڑائی دیتا
آسمان آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا
خیر جناب آپ کو تو علم وفہم تبحر تدبر کے علاوہ الہام پر بھی بہت بڑا گھمنڈ ہے۔ مگر یہ عاجز تو سوائے فضل ورحمت اپنے رب کریم کے اور کوئی پونجی اپنے پاس نہیں رکھتا اور خاص اس ذات تعالیٰ وتقدس کی تائید پر عاجزانہ طور پر یہ عرض کرتا ہے۔ اگر حضور کے خیال عالی میں آجائے ؎
ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ نادان ہوئے کیا تجھ سے بھی نادان ہوں گے
آمدم برسر مطلب
اب (قادیانی) مولوی (احسن امروہی) صاحب کے خط کا جواب شروع ہوتا ہے۔ بحول اﷲ تعالیٰ وقوتہ!
قولہ… ’’عذر تاخیر جواب عنایت نامہ۔‘‘
اقول… اگرچہ عذر بدتر از گناہ مشہور ہے۔ مگر آپ کے ارشد کو رد کیونکر کروں۔ قبول ہے ؎
اب تو یہ حال ہے کیا ہووے گا آگے آگے
دل میں یہ خوف سمایا ہے خدا خیر کرے
قولہ… ’’آپ نے تمام شہر میں۔‘‘
اقول… حضرت نہ میں نے جناب کی اہانت کی، نہ آبرو ریزی، نہ اتہام لگایا، نہ افتراء باندھا۔ مگر آپ کے سامنے کسی آپ کے ہم خیال نے یہ افتراء پردازی کی ہو تو عجب نہیں اس کا علاج