اس کہنے سے ’’وذلک ینا فی المضے‘‘ حاصل ہو جاتا ہے۔ ’’والحال‘‘ کے لفظ کو اس جگہ بڑھانے کی کچھ ضرورت نہیں۔ ہاں اگر اس کو یہ خبر ہوتی کہ چودھویں صدی میں ایک ایسے مصنوعی مسیح اور ان کی امت میں ایسے عالی فہم احسن المناظرین پیدا ہوں گے تو گو! بے ضرورت بلکہ زائد اور محض بے فائدہ بات تھی۔ شاید اس طرف توجہ کرتا اگر اپنے کلام میں زوائد کے عیب سے اس کو مضائقہ نہ ہوتا اور صورت ہذا میں تو ادنیٰ استعداد والا بھی سمجھتا ہے کہ زیادۃ والحال محض لغو ہے۔ واسطے ملاحظہ طلباء کے پوری عبارت ازہری کی نقل کی جاتی ہے۔ جناب احسن المناظرین صاحب ذرا مہربانی فرماکر اپنے عینک لگا لیجئے۔ عبارت ازہری ’’ولا یؤکد بہما الماضے لفظا ومعنیے مطلقا الانہما یخلصان مدخولہما للاستقبال وذلک لاینا فی المضے‘‘ اگر اس سے بھی اطمینان نہیں نہیں ہوا تو دوسری عبارت ازہری کی اور ملاحظہ ہو۔ لیکن ذرا روشنی کے رخ پر تشریف لئے آئیے اور غور فرمائیے۔ عبارت ازہری ’’اوکان المضارع حالا کقراۃ ابن کثیر لاقسم بیوم القیامۃ وقول الشاعر ؎
یمیناً لا بغض کل امرئے
یزخرف قولاً ولا یفعل
فاقسم فی الاٰیۃ وابغض فی البیت معناہما الحال لدخول الام علیہما وانما لم یؤکدا بالنون لکونہا تخلص الفعل اللاستقبال ذلک دینا فی الحال‘‘ چونکہ اس جگہ مقصود صرف اثبات اس امرکا تھا کہ نون تاکید حال کی تاکید کے لئے نہیں آتا ہے۔ اس لئے ’’وذالک ینافی الحال‘‘ کہا۔ ماضی کا ذکر نہیں کیا۔ اب دونوں عبارتوں کے لانے سے آفتاب نیمروز کی طرح روشن وظاہر ہوگیا کہ مراد مستقبل سے وہ مستقبل ہے جو مقابل ماضی وحال کا ہے۔ نہ مضارع۔ جیسا کہ جناب احسن المناظرین صاحب کا خیال محال ہے۔ اگر واقعی احسن المناظرین سمجھے ہی نہیں تھے تو افسوس۔ ذرا اگر سمجھ محض اپنے ہم مذہب اور ہم طریق لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے یوں چند راتی ہیں تو افسوس پر افسوس۔ بلکہ صد افسوس ؎
فان کنت لا تدرے فتلک مصیبۃ
وان کنت تدرے فالمصیبۃ اعظم
اور جناب نے عبدالحکیم کے تکملہ کا ذکر تو اپنی تحریر میں فرمایا ہے اور یہ عبارت بھی ملاحظہ کی ہوگی۔ شاید بسبب تقاضائے سن نگاہ چوک گئی ہو تو مکرر اس طرف نظر لڑائیے۔ اے جناب حکیم