نورالدین صاحب ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیے گا۔ عبارت تکملہ ’’لان النون تخلص المضارع للاستقبال فکرھوا الجمع بین حرفین لمعنی واحد فی کلمۃ واحدۃ‘‘ کیوں حضرات! ناظرین خاص کر جناب حکیم نورالدین کیا یہ عبارت صاف صاف اس پر دلالت نہیں کرتے کہ مراد استقبال سے مضارع نہیں ہے۔ ورنہ یہ عبارت ہی لغو ہوتی ہے۔ ضرور دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ جناب حکیم صاحب مولوی صاحب کا مطلب اگر صحیح ہو تو اس تقدیر پر اس عبارت کے یہ معنی ہوں گے۔ ’’لان النون تخلص المضارع للمضارع وہذا الغوای لغو‘‘ جناب احسن المناظرین صاحب آپ جاتے کہاں ہیں اور لیجئے یہ معنی کی عبارت بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جناب حکیم صاحب براہ مہربانی آپ بھی ادھر توجہ فرمائیں۔ عبارت ’’ولا یؤکد بہما الماضے مطلقا واما المضارع فان کان حالالم یؤکد بہما وان کان مستقبلا اکدبہما وجوبا فی نحو تاﷲ لا کیدن اصنامکم‘‘ ملاحظہ فرمایا یہ عبارت کیسی صاف دلالت کرتی ہے۔ اس پر کہ مراد مستقبل سے مضارع نہیں ہے۔ اس لئے کہ مقابل حال کا واقع ہوا ہے۔ اگر اس پر بھی تسلی نہ ہو تو شیخ زادہ کی عبارت بغور اور ملاحظہ فرمائیے کہ شیخ زادہ نے تو آپ کی ساری شیخی جو خلاف سیادت آ پ سے عمل میں آئی تھی کر کری کر دی۔ ہاں آپ نے اسی وجہ سے شاید شیخ جی کی طرف عنان عزیمت کرم فرمائی ہے۔ مگر جناب مولوی صاحب جب آپ کے مصنوعی مسیح کی توجہ کچھ کام نہ آئی تو شیخ جی غریب کیا کریں گے۔ میرے نزدیک تو آپ امروہہ نہ جائیے توبہ کیجئے اور بیت اﷲ شریف کو چلئے۔ ’’ففرو الیٰ اﷲ انی لکم منہ نذیر مبین‘‘ اگر یہ ارادہ ہو جائے تو خرچ راہ کا ذمہ دار عاجز ہے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ بشرط خلوص ارادت بہت بہتر ہے اور اس وقت تو یہ ملاحظہ فرمائیے کہ شیخ زادہ کیا کہتا ہے۔ عبارت شیخ زادہ: ’’واختص بالمستقبل لان الطلب انما یتعلق بمالم یحصل وھو المستقبل بخلاف الحال والماضے لحصو لہما‘‘ افسوس کہ یہ سب عبارتیں مناظرہ میں نقل ہو چکی ہیں۔ مگر اس فہم کا کیا کیجئے۔
آپ جناب حکیم نورالدین سے مشورہ لے لیتے اور انہیں یہ مضمون دکھا دیتے تو ایسی ناسمجھی میرے خیال ناقص میں ان کے فہم سے دورہے۔ آپ مرزاقادیانی ومولوی عبدالکریم صاحب وٹونکی صاحب وشیخ صاحب وغیرہم کے بھروسہ پر مگن ہوگئے۔ حکیم صاحب کو یہ مضمون نہیں دکھایا اور اگر یہ سچ ہے تو اصل بات یہ ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی نگاہ پر کوئی عبارت یا