تاکید استقبال کے واسطے نحو میں لکھا ہے۔ امر نہی استفہام تمنی عرض وغیرہ ان میں صرف نون تاکید ہوتا ہے۔ بغیر لام تاکید کے پس ان صیغوں میں صرف استقبال ضرور مراد ہوسکتا ہے۔ لیکن جس صیغہ میں لام تاکید بھی ہو اور نون تاکید بھی اس میں خالص ہونے استقبال کے کیا دلیل ہے۔‘‘ یہاں تو حضرت احسن المناظرین صاحب نے کمال ہی لیاقت خرچ کر دی اور بالکل آپ نے قلعی کھول دی۔ اے حضرت! ذرا سمجھ کے بات کیا کیجئے۔ یہ تو فرمائیے کہ آپ نے کچھ اپنے استاد کی خدمت بھی کی تھی یا نہیں۔ چونکہ اس وقت جناب کو وطن کے جانب زیادہ خیال ہے اور شاید ادھر سے کچھ شیخ صاحب کی توجہ کا بھی اثر ہو۔ اس لئے یہ حال ہے۔ ورنہ جس کے ہاتھ میں کتاب ہو اور وہ ایسے بے تکے ہانکے یہ عقل سے بعید ہے۔ مولوی صاحب ’’انتم تتلون الکتاب افلا تعقلون‘‘ سچ کہو دیکھا سمجھا ہی نہیں۔ یا تجاہل عارفانہ کرتے ہو۔ کچھ ہی ہو اپنے گروہ میں احسن المناظرین تو بن گئے۔ اے مولوی صاحب ذرا خدا سے ڈرو۔ مسلمانوں کو دھوکہ مت دو ؎
وعظ گوئی خود نیاری در عمل
چشم پوشی ہمچو شیطان دغل
دام اندازی برایٔ مردوزن
خویش راگوئی منم شیخ زمن
جناب مولوی صاحب جہاں یہ لکھا ہے کہ وہ نون تاکید جو امر نہی استفہام، تمنی، عرض میں آتا ہے وہ خالص استقبال کے لئے ہوتا ہے۔ وہیں تو یہ بھی لکھا ہے کہ جس صیغہ میں نون تاکید لام تاکید کے ساتھ جمع ہوتا ہے۔ وہ بھی خالص استقبال کے لئے ہوتا ہے۔ شرح جامی آپ کے پاس موجود ہے۔ ذرا تکلیف فرما کے ہاتھ میں لیجئے اور ملاحظہ فرمائیے غور سے نظر بھر کر دیکھئے۔ شاید حضور کی عینک پرانی ہوگئی ہے۔ عبارت شرح جامی ’’تختص بالفعل المستقبل فی الامر والنہی واستفہام والتمنے والعرض والقسم نحو واﷲ لا فعلن‘‘ کیوں جناب مولوی صاحب والعرض تک تو جناب نے ملاحظہ فرمایا اور لفظ ’’والقسم نحو واﷲ لا فعلن‘‘ پر دشمنوں کے نگاہ خطا کر گئی۔ یا یوں کہوں کہ دشمن مدعیوں کی آنکھوں پر اندھری چھا گئی۔ اب تو تارے دکھائی دینے لگے۔ کیوں حضرت یہی تقویٰ اور دیانت اور اظہار حق وصواب ہے۔ اے مولوی صاحب اتق اﷲ کیوں حضرات ناظرین! آپ نے احسن المناظرین صاحب کی حسن دیانت کو ملاحظہ فرمایا کیا اس جگہ میں صاف نہیں لکھا ہوا ہے کہ جیسا نون تاکید امر نہی استفہام عرض