بنابنایا گھر ہی بگڑ گیا۔ واہ حضرت احسن المناظرین آپ نے اچھی مرزاقادیانی کی تائید کی۔ اس طرح آنکھیں بند کر کے منہ کھولا اور اعتراض کا گولہ اندھا دھند پھینکا کہ غریب مرزاقادیانی کی تمام بنی بنائی عمارت اڑ گئی۔ حضرت آپ کو کچھ خبر بھی ہے۔ یہ گولہ کہاں جا کے لگا، کیا ہوا ذرا آنکھیں کھولیئے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ جس قدر پیشین گوئیاں قرآن مجید واحادیث شریف کے مؤکد بقسم ہیں۔ ان سب ہی پر آپ کا یہ اعتراض وارد ہوتا ہے اور آپ کے مسیح کے مسیحائی کی جو بنیاد ہے یعنی جس حدیث سے مرزاقادیانی نے اپنے مسیح موعود ہونے کا استدلال کیاہے وہ یہ حدیث ہے۔ ’’عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲﷺ والذی نفسے بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم‘‘ پس اور تو جو کچھ ہوگا وہ ہوتا رہے گا۔ آپ مرزاقادیانی کا گھر تو سنبھالئے۔ ’’فما ھو جوابکم فہو جوابنا‘‘
گیارھواں نمونہ
(ص۱۱۹) میں احسن المناظرین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’یہ جو بعض کتب نحو میں لکھا گیا ہے کہ زمانہ حال کا ایسا نہیں ہے کہ اس میں کوئی فعل واقع ہوسکے اور اس بناء پر مولوی صاحب نے زمانہ استقبال کی دو قسمیں کی ہیں۔ اوّل استقبال قریب دوم استقبال بعید۔‘‘ یہاں سے بھی احسن المناظرین صاحب کی لیاقت کا کمال علم نحو میں ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ زمانہ استقبال کی تقسیم جو استقبال قریب اور استقبال بعید کی طرف کی گئی ہے۔ اس سے حضرت یہ سمجھ گئے ہیں کہ زمانہ حال کا ایسا نہیں ہے کہ اس میں کوئی فعل واقع ہوسکے۔ حالانکہ تقسیم مذکور اس پر مبنی نہیں ہے۔ دیکھو عامہ نجات استقبال کی دو قسمیں کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ اس امر کے قائل نہیں ہیں کہ زمانہ حال کا ایسا نہیں ہے کہ اس میں کوئی فعل واقع ہوسکے۔ شرح جامی میں ہے۔ ’’ودخول السین وسوف لدلالتہالاوّل علیٰ الاستقبال القریب دالتا علیٰ الا ستقبال البعید‘‘ اور تمام بصیریو کا بھی مذہب ہے۔بارھواں نمونہ لیاقت فہم وکمال علم احسن المناظرین
(ص۱۲۱) میں آپ لکھتے ہیں کہ: ’’ازہری وغیرہ نے تصریح میں تصریح کی ہے کہ لام تاکید کا حال کے واسطے آتا ہے۔ اب تسلیم کیا کہ فقط نون تاکید صرف استقبال کے واسطے ہے۔ لیکن جب کہ کسی صیغہ میں لام تاکید بھی ہو جو حال کے واسطے آتا ہے اور نون تاکید بھی ہو چنانچہ ’’مانحن فیہ‘‘ میں ہے تو وہاں پر خالص استقبال بالضرور ہونے کی کیا وجہ مانا کہ صرف نون