یؤکد الا مطلوبا والمطلوب لا یکون ماضیا ولا حالا ولا خبرا مستقبلاً‘‘ اس سے یہ غرض نہیں ہے کہ نون تاکید غیر مطلوب کی تاکید کے لئے نہیں آتا۔ صرف مطلوب کی تاکید کے لئے آتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وضع تو نون التاکید کی مطلوب کی تاکید کے لئے ہے اور غیر مطلوب کے تاکید کے لئے بھی بسبب دیگر وجوہ کے آجاتا ہے۔ تکملہ میں ہے۔ ’’ای لا یؤکد النون الا مطلوبا لان وضعہ لتاکید طلب حصول شیٔ اما فی الخارج اوفی الذہن والمطلوب لا یکون ماضیا ولا حالا ولا خبراً مستقبلاً‘‘ اور یہی تکملہ میں ہے۔ ’’واما فی دلالۃ القسم علیٰ الطلب وفیہ تأمل لان الانسان قد یقسم علیٰ ما یعملہ مما ہو لیس مطلوبہ کقول من انی بکبیرۃ واﷲ لا عاقبن الا ان یقال الغالب ان یقسم المتکلم علیٰ ماھو مطلوب وحمل بقیۃ الباب علیہ‘‘ شیخ زادہ حاشیہ بیضاوی میں لکھتا ہے۔ ’’والمستقبل الذی ہو خبر محض لا تلحق نون التاکید باٰخرہ الا بعد ان یدخل علیٰ اوّل الفعل ما یدل علیٰ التاکید کلام القسم وان لم یکن فیہ معنے الطلب لان الغالب ان المتکلم یقسم علیٰ مطلوب‘‘ تمام کتب نحو میں غیر مطلوب کی تاکید کی تین صورتیں لکھی ہیں۔ عبارت کافیہ کی یہ ہے۔ ’’وقلت فی النفے والزمت فی مثبت القسم وکثرت فی مثل اما تفعلن‘‘
اما علم تفسیر
پس بیان اس کا یہ ہے کہ اہل تفسیر نے جس جملہ کو انشائیہ کہا ہے۔ اس کو مولانا صاحب پیشین گوئی نہیں فرماتے اور جس کو مولانا صاحب پیشین گوئی فرماتے ہیں اس کو اہل تفسیر نے انشائیہ نہیں کہا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اہل تفسیر نے ’’لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ کو جو جملہ قسمیہ انشائیہ قرار دیا ہے مراد اس سے ’’واﷲ لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ ہے اور پیشین گوئی صرف ’’لیؤمنن قبل موتہ‘‘ ہے جو جو اب قسم ہے اور وہ جملہ خبر یہ ہے اور قسم کا جواب جملہ خبر یہ ہونا تمام کتب نحو سے ثابت ہے اور قرآن مجید اور سنت مطہرہ میں بہت واقع ہوا ہے۔ جیسے ’’لتد خلنّ المسجد الحرام‘‘ اور ’’لیستخلفنہم فی الارض‘‘ وغیرہ وغیرہ اور علاوہ اس کے یہ اعتراض اس تقریر پر بھی وارد ہوسکتا ہے کہ ضمیر قبل موتہ کی طرف کتابی کے عائد کی جاوے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی بھی لکھتے ہیں۔ کیونکہ اس تقریر پر بھی اہل تفسیر نے اس جملہ کو جملہ خبر یہ انشائیہ ہی لکھا ہے اور سب سے بڑی قباحت اس اعتراض سے یہ پیش آئی کہ شیخ چلی کی طرح مرزاقادیانی کا تو