نواں نمونہ علم قرأت میں احسن المناظرین کی لیاقت کا کمال
(ص۱۱۰) میں آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’اس علم کی طرف مولوی صاحب نے بالکل توجہ نہیں فرمائی۔ ورنہ چند سطور میں فیصلہ ہو جاتا۔ اگر تسلیم کیا جاوے کہ قرأت مندرجہ مصحف ابی بن کعب بالکل قرأۃ شاذہ ہے تو قرأت مشہورہ کے لئے اس کے مبین اور مفسر ہونے میں کیا کلام ہے۔ یہ مسئلہ بھی قراء وغیرہ کے نزدیک مسلم ہے۔ اتقان وغیرہ میں لکھا ہے۔ ’’وقال ابوعبیدۃ فی فضائل القرآن‘‘ سبحان اﷲ! جناب احسن المناظرین صاحب کیا کہتے ہیں ؎
چہ خوش گفت ست سعدی در زلیخا
الایا ایہا الساقی ادرکا ساو ناولہا
حضرت اتقان میں قراء نے فضائل القرآن میں لکھا ہوگا۔ مگر اتقان کوئی قرأت کی کتاب نہیں ہے۔ بلکہ علم تفسیر کی کتاب ہے اور اس مسئلہ کو کہ قرأۃ شاذہ قرأت مشہور کے مبین ومفسر ہوتے ہے۔ علم قرأت کا مسئلہ قرار دینا محل نظر ہے۔ ہاں اگر مسئلہ علم تفسیر یااصول فقہ کہا جائے تو مستبعد نہیں۔ مگر اس مسئلہ میں تو یہ بات عموماً غیرمسلم ہے کہ ہر قرأت شاذہ مبین ومفسر ہو سکے۔ کیونکہ اصول فقہ میں حکم قرأت شاذہ کا حکم خبر آحاد کا ہے۔ جن شروط سے خبر آحاد مبین ومفسر ہوسکتے ہے۔ انہیں شروط سے قرأت شاذہ بھی مبین ومفسر ہوسکتی ہے اور یہاں ان سب شروط کا تحقق غیر مسلم ہے اور ایک جماعت اہل تحقیق کی خلاف حنفیہ وغیرہ کے اس طرف گئی ہے کہ روایت شاذہ اگر بسند صحیح بھی ثابت ہو تو بھی مبین ومفسر نہیں ہوسکتی ہے۔
دسواں نمونہ علم نحو وعلم تفسیر میں احسن المناظرین کی لیاقت کا کمال
(ص۱۱۶) میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’انہیں کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’نون التاکید لا یؤکد الا مطلوبا والمطلوب لا یکون ماضیا ولا حالا ولا خبرا مستقبلاً‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ ’’لیؤمنن قبل موتہ‘‘ جملہ خبر یہ نہیں ہے۔ بلکہ جملہ قسمیہ انشائیہ ہے۔ چنانچہ تفسیر بیضاوی وغیرہ میں واﷲ کو پہلے لیؤمنن کے مقدر مانا ہے اور جملہ قسمیہ انشائیہ ہی قرار دیا ہے اور جب کہ جملہ قسمیہ انشائیہ ہوا تو پیشین گوئی یعنی خبر مستقبل کیونکر ہوسکتا ہے۔ کجا جملہ خبر یہ اور کجا جملہ انشائیہ۔‘‘ اس سے آپ کا کمال اور لیاقت علم نحو اور علم تفسیر میں ظاہر ہوگئی۔
اما علم نحو
پس بیان اس کا یہ ہے کہ اس فن کی کتابوں میں جو یہ لکھا ہے کہ: ’’نون التاکید لا