میں مدعی نہیں ہوں (ڈرتے کیوں ہو) بطور نمونہ کے تقریر اس کی یہ ہے۔ ’’عیسیٰ ابن مریم کان نبیا من الناس ومات الناس حتیٰ الانبیاء یعنی کلہم ماتوا فعیسیٰ ابن مریم ایضامات‘‘ مقدمہ صغری تو مسلم ہی ہے اور مقدمہ کبریٰ ایسا مشہور ہے کہ اطفال مکتب لفظ حتیٰ کہ مثال میں پڑھا کرتے ہیں۔ اس سے اور کوئی فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ مگر آپ کی لیاقت کا تو فیصلہ ہوگیا اور آپ کا کمال منطقی خوب معلوم ہوگیا۔ کیونکہ صغریٰ کبریٰ پڑھنے والا بھی جانتا ہے کہ شکل اوّل کے انتاج کی شرط کلیۃ کبریٰ ہے اور ’’ومات الناس کلہم‘‘ عموماً کسی زمانہ میں اور خصوصا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت سے اب تک کبھی صادق نہیں آیا۔ کیونکہ حاصل اس کا یہ ہے۔
کل انسان قدمات فی الزمان الماضے
اور یہ قضیہ کاذب ہے اور اجتماع النقیضین بالبداہت باطل ہاں یہ کلیہ نفخ صور کے بعد جب سب انسان مر جائیں گے البتہ صادق آجائے گا۔
چھٹا نمونہ علم بلاغت میں احسن المناظرین کی لیاقت کا کمال
(ص۱۰۸) میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’اس علم کی طرف بھی مولوی صاحب نے رخ تک نہیں کیا۔ ورنہ بہت آسانی سے فیصلہ ہوسکتا تھا۔ مطول اور اس کے حواشی میں لکھا ہے۔‘‘ بعد اس کے آپ نے مطول کی عبارات نقل کی ہیں۔ جن میں یہ ذکر ہے کہ مضارع سے کبھی دوام تجددی مراد ہوتا ہے اور دو مثالیں ان میں مذکور ہیں۔ اوّل الزاہد لیشرب ویصراب!
دوسری مثال ’’اﷲ یستہزٔ بہم ویمدہم‘‘ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر مرزاقادیانی نے حسب مقتضائے مقامات قرآن مجید میں مستقبل کے معنی دوام تجدد کے مراد لئے تو کون سا محذور لازم آیا۔ اس سے احسن المناظرین صاحب کی کمال لیاقت علم بلاغت میں ثابت ہوگئی کہ آپ کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ ان دونوں مثالوں میں جو دوام تجددی مراد لیاگیا ہے۔ ان میں نون ثقلیہ کہاں ہے؟ اور مرزاقادیانی قرآن مجید میں جہاں دوام تجددی مراد لیتے ہیں۔ وہاں نون ثقیلہ موجود ہے۔ ’’فقیاس احدہما علے الاٰخر قیاس مع الفارق‘‘ علاوہ اس کے دوام تجددی کا مضارع کے لئے معنی حقیقی ہونا عبارات مذکورہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا ہے۔ غایت ما فی الباب یہ ہے کہ یہ معنی مجازی ہوں۔ جیسا کہ لفظ قد اس پر صاف دلالت کرتا ہے اور مجاز پر حمل جائز نہیں ہے۔ جب تک کہ قرینہ صارفہ حقیقت سے پایا جاوے۔ ومن یدعی فعلیہ البیان!