فہم عالی کے کمال کا تیسرا نمونہ
آپ کے نزدیک جب آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ حیات مسیح علیہ السلام پر دلالت کرنے میں متشابہ ہے تو نہ صرف مولانا محمد بشیر صاحب بلکہ وہ سب اکابر جنہوں نے اس آیت سے حیات عیسیٰ علیہ السلام سمجھی ہے۔ جیسے ابوہریرہؓ ابن عباسؓ وابومالکؒ وحسن بصریؒ وقتادہؒ وعبدالرحمن بن زید بن اسلم اور ابن جریر وابن کثیر وغیرہم یہ سب متشابہ کا اتباع کرنے والے ہوئے اور معاذ اﷲ سب آپ کے نزدیک مرتکب حرام ٹھہرے۔ کیونکہ اتباع متشابہ کا بنص قطعی حرام ہے۔ ’’لا حول ولا قوۃ الا باﷲ کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ان یقولون الا کذبا‘‘
زوی آتش پئے یک شیر ظالم نیستانے را
غرض دل بود بیجا سوختے ہر استخوانے را
اور جوش تعلّی میں جناب احسن المناظرین صاحب یہ بھی بھول گئے کہ ان کے مصنوعی مسیح نے بھی وفات عیسیٰ علیہ السلام پر اس آیت سے استدلال کیا ہے تو وہ ضرور ہی مرتکب حرام کے ٹھہر گئے۔ اس لئے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ان کا مسلم ہے۔
میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
چوتھا نمونہ علم منطق میں احسن المناظرین کی لیاقت کا کمال
(ص۱۰۳) میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’اجتماع الضدین یا ارتفاع الضدین تو محالات سے ہے۔‘‘ (واضح ہو کہ مطبوعہ میں لفظ ارتفاع الضدین کا سہو کاتب سے رہ گیا ہے۔ مگر مولوی صاحب کے دستی خط میں موجود ہے اور وہ خط مولانا صاحب کے پاس ہے اور عبارت مطبوعہ بھی کہہ رہی ہے) اس سے علم منطق میں آپ کی لیاقت کا اندازہ اور کمال کا اظہار ہوگیا۔ اس لئے کہ اجتماع الضدین تو سب کے نزدیک محال ہے۔ مگر ارتفاع الضدین کسی کے نزدیک محال نہیں؟ دیکھو سواد وبیاض دونوں ضدین ہیں۔ مگر ارتفاع ان کا ممکن ہے۔ اس طرح پر کہ سواد ہو نہ بیاض بلکہ مثلاً حمرت ہو۔ البتہ ارتفاع النقیضین محال ہے۔ لیکن ارتفاع النقیضین اور ارتفاع الضدین میں فرق بیّن ہے۔ دونوں کو متحد ماننا آپ کے کمال تبحر کی دلیل ہے۔
پانچواں نمونہ
(ص۱۰۷) میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مولوی صاحب نے اس مباحثہ میں علم منطق سے بھی کام نہیں لیا۔ ورنہ شکل اوّل بدیہ الانتاج سے ایک دو سطر میں فیصلہ ہو جاتا۔ مگر یاد رہے کہ