اوّل نمونہ اصول فقہ میں احسن المناظرین صاحب کی لیاقت کا کمال
(ص۱۰۶) میں آپ نہایت فخر اور بے حد تعلّی کے ساتھ فرماتے ہیں کہ: ’’مولوی صاحب نے اس علم کی طرف بالکل توجہ نہیں فرمائی۔ اگرچہ احقر کا منصب مدعی کا نہیں ہے۔ لیکن اس غرض سے کہ مولوی صاحب اس طرف توجہ فرمائیں۔ کچھ عرض کرتا ہے کہ وفات عیسیٰ ابن مریم آیت ’’انی متوفیک‘‘ سے بروایت صحیح بخاری ابن عباس ’’انی ممیتک‘‘ کے بطور عبارت النص کے ثابت ہے۔‘‘
پھر (ص۱۰۷) میں فرماتے ہیں کہ: ’’آیت ’’انی متوفیک‘‘ حسب روایت صحیح بخاری کی وفات عیسیٰ ابن مریم میں محکم ہے۔‘‘ اس سے جناب احسن المناظرین کی لیاقت اور فن اصول فقہ میں یہ کمال ظاہر ہوا کہ آپ نے اس جگہ نص اور محکم کو جمع کر دیا ہے۔ حالانکہ علم اصول فقہ میں یہ دونوں قسمیں جداجدا اور متبایں ہیں۔ دیکھو مسلم الثبوت عبارت مسلم ’’النظم ان ظہر معناہ فان لم یسق لہ فہو الظاہر وان سیق لہ فان احتمل التخصیص والتاویل فہو النص ویقال ایضاً لکل سمعی فان لم یحتمل فان احتمل النسخ فہو المفسر فہومما لا شبہۃ فیہ ولہذا یحرم التفسیر وبالرأی دون التاویل ویقال ایضاء لکل مبین بقطع ولمبین بظنے ماؤل وما لا یحتمل النسخ فہو المحکم‘‘
اصول فقہ میں احسن المناظرین کی کمال لیاقت کا دوسرا نمونہ
(ص۱۰۶) میں نہایت زور کے ساتھ آپ کی تحریر ہے کہ آیت: ’’وان من اہل الکتٰب کی دلالت اگر حیات مسیح بن مریم پر تسلیم کی جاوے تو یہ دلالت بطور اشارۃ النص کے ہے۔‘‘
اور (ص۱۰۷) میں لکھتے ہیں: ’’اور بغرض تسلیم قبل موتہ حیات پر دلالت بھی کرے تو یہ دلالت واضح نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں ضمائر وغیر ذوالوجوہ ہیں اور روایتاً ودرایتاً مفسرین کا ان میں بہت ساکچھ اختلاف ہے اور اس کو متشابہ کہتے ہیں۔‘‘ واہ جناب احسن المناظرین صاحب یہ تو اصول فقہ میں خدام والا کی عجیب لیاقت اور نیا کمال ظاہر ہوا کہ اشارۃ النص اور متشابہ کو آپ نے جمع کر دیا۔ حالانکہ اتباع اشارۃ النص کا حرام نہیں ہے اور متشابہ کا اتباع مطلقا حرام ہے۔ لقولہ سبحانہ وتعالیٰ ’’فاما الذین فی قلوبہم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ‘‘ اور اس لیاقت پر یہ افتخار کہ جناب تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’اگر دیگر قواعد علم اصول کی طرف رجوع کی جائے تو مباحثہ چار پانچ سطروں میں ختم ہوسکتا ہے۔‘‘ اے جناب ہو کیا سکتا ہے حضور کی طرف سے تو خاتمہ ہوگیا۔ بلکہ ساتھ ہی ساتھ خدام والا کی لیاقت بھی ختم ہوگئی۔