ہر چند کہ مجھے اس کے جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ میں نے تو احسن المناظرین صاحب کو مناظرہ کے لئے طلب کیا تھا۔ جس کے وہ داعی تھے۔ انہوں نے اس سے صاف انکار کیا۔ دوسری بات قابل جواب یہ تھی کہ وہ اپنے مصنوعی مسیح کے مسیح موعود ہونے کا کچھ ثبوت دیتے۔ یہ بھی نہ کر سکے۔ تیسری بات یہ تھی کہ وہ ہر طبقہ میں دس دس بیس بیس نہیں تو دو دو چار چار تو ایسے مسلمان بتا اور گنوادیتے جن کے خیالات اور اعتقادات ایسے ہی ہوتے جو مرزاقادیانی اور ان کے اتباع کے ہیں۔ مگر ان باتوں کا جواب (قادیانی) مولوی صاحب دے ہی نہیں سکتے۔ دیتے کیا ان کے پاس جواب کے سوا جواب ہی کیا ہے ؎
مدت سے اس کے ہم سخنی کی تھی آرزو
اب عین وصل ہے تو نہیں تاب گفتگو
اے جوش گریہ بس یہ ہی تھی آرزو
او میکند سوال ومرا درجواب او
از اضطراب دل نتواند سخن کند
اب رہی جناب احسن المناظرین صاحب کی بیجا تعلّی اور لاف زنی۔ اس سے مجھے کیا ؎
ابن مریم تو ہو نہیں سکتا
یوں مسیحا بنا کرے کوئی
لیکن مجھ سے چند احباب نے ذکر کیا کہ (احسن قادیانی) مولوی صاحب نے اس مضمون کو طبع کروایا ہے یا کروانا چاہتے ہیں۔ اس لئے ناظرین کو جواب کا انتظار ہوگا۔ بپاس خاطر انتظار ناظرین جواب الجواب لکھے دیتا ہوں اور ایک اس وجہ سے بھی کہ ؎
گفتگو ہائے یار بھی دیدار سے کچھ کم نہیں
آرزوے وصل وصل یار سے کچھ کم نہیں
مگر اس سے پہلے مجھے ناظرین کی خدمت میں اتنا عرض کردینا ضرور ہے کہ مجھ سے مولوی صاحب کے ایک دوست نے فرمایا کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی بے مثل فاضل جامع جمیع علوم عقلیہ ونقلیہ ہیں۔ احسن المناظرین ان کا خطاب ہے۔ مولانا مولوی محمد بشیر صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ کے مقابل انہوں نے اپنے کس قدر علوم کا اظہار وافتخار کیا ہے۔ ایسا لائق وفائق بے عدیل وبے نظیر فاضل تجھ جیسے بے علم آدمی سے خطاب کرے۔ یہ کب ہوسکتا ہے؟