دل تڑپتا ہے صبح وشام پڑا
یا الٰہی یہ کس سے کام پڑا
شکر اور صدہزار شکر کہ وہ تمنا برآئی۔ شاہد مقصود نے صورت دکھائی۔ اعنی جناب مولوی محمد احسن صاحب احسن المناظرین کا وہ مضمون جو جناب موصوف نے اس عاجز مسافر کے جواب میں لکھا ہے جناب سردار حسین خان صاحب بہادر کپتان ملکی کی معرفت احقر تک آیا۔ دل سے پڑھا۔ آنکھوں سے لگایا۔ ؎
ہزار شکر کہ خط صبح یار کا پہنچا
دل فسردہ کو مژدہ بہار کا پہنچا
میں مشکور ہوں کہ مولوی صاحب نے اس جواب سے خاکسار کی عزت بڑھادی۔ مگر ساتھ ہی نامہ بر نے یہ افسوس ناک خبر بھی سنادی کہ جناب موصوف تجھ سے ملنا نہیں چاہتے۔ گو میں نے بہت سمجھایا۔ مگر وہ کسی طرح ڈھب پر نہیں آتے۔ مناظرہ کی طرف توجہ نہیں فرماتے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس عاجز مسافر نے اس سفر کا بار اسی لئے اٹھایا تھا اور یہاں تک آیا تھا مگر مولوی صاحب کو رحم نہ آیا۔ خیر یا قسمت یا نصیب ؎
یہ کہاں قسمت کہ کانوں سے سنوں وہ گفتگو
ہاں مگر قاصد ہو پیدا بعد بے حد جستجو
ہائے ناکامی رہے دل کی ہی دل میں آرزو
برنگر دو قاصد از شرم جواب تلخ او
چوں پیام من برشیریں کلام من برد
اور نہ صرف نامہ برہی نے یہ پیام سنایا بلکہ مولوی صاحب کے تمام مضمون کا حاصل بھی یہ ہی ہے۔ کیوں جناب مولوی صاحب باوجود دعوت کوئی کسی کو یوں صاف جواب دیتا ہے۔ کیا یہ اس عاجز مسافر پر صریح ظلم نہیں ہے ؎
رحم ہر گز نہیں آتا تجھے ہم پر ظالم
دل ٹھہرتا نہیں ٹھہرتے کوئی کیونکر ظالم
تیری محفل سے چلے سخت مکدر ظالم
اے دل آزار جفا کیش ستمگر ظالم
لطف کن لطف کہ ایں بار چو رفتم رفتم