فائدہ میں یہ لکھا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں۔ جب یہود میں دجال پیدا ہوگا۔ تب اس جہان میں آکر اس کو ماریں گے اور یہود ونصاریٰ سب ان پر ایمان لاویں گے کہ یہ مرے نہ تھے۔ انتہی!
یہ آیت قطعیۃ الادلالۃ حیات مسیح علیہ السلام پر ہے۔ بیان اس کا یہ ہے کہ موتہ کی ضمیر میں مفسرین کے دو ہی قول ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے۔ پہلی صورت میں تو قطعاً مطلب حاصل ہے۔ کیونکہ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی مرے نہیں۔ لیؤمنن کو خواہ خالص مستقبل کے لئے لیجئے اور یہی صحیح ہے اور اسی پر اتفاق ہے۔ سب نحویوں کا اور خواہ حال یا استمرار کے لئے لیجئے۔ جیسا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کہتے ہیں۔ اگرچہ اس تقدیر پر معنی فاسد ہوتے ہیں۔ مگر ہمارا مطلب فوت نہیں ہوتا ہے اور ماضی کے معنی میں لینا بالبداہت باطل ہے۔ کیونکہ ایسا مضارع کہ جس کے اوّل میں لام تاکید اور آخر میں نون تاکید ہو۔ بمعنی ماضی نہیں آتا ہے۔ ومن یدعی خلافہ فعلیہ البیان اور ایسا ہی بہ کی ضمیر کو خواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف عائد کیجئے یا اﷲ کی طرف یا آنحضرتﷺ کی طرف اگرچہ اوّل ہی صحیح ہے۔ مگر ہمارا مطلب ہر صورت میں حاصل ہے۔
مفسرین کا اختلاف اس ضمیر میں ہمارے مطلوب میں کچھ خلل نہیں ڈالتا ہے۔ دوسرے قول پر یعنی اگر ضمیر موتہ کی اہل کتاب کی طرف پھیری جاوے بھی۔ ہمارا مطلب حاصل ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اس وقت ہم پوچھتے ہیں کہ بہ کی ضمیر کس کی طرف پھیرو گے۔ اگر آنحضرتﷺ یا اﷲتعالیٰ کی طرف پھیرتے ہو تو یہ باطل ہے۔ تین وجوہ سے:
اوّل… یہ ہے کہ سب ضمیریں واحد کی جو اس کے قبل وبعد میں آئی ہیں۔ بالاجماع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہیں۔ پس ظاہر نص یہی ہے کہ ضمیر بہ کی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہو۔ ’’فان النصوص تحمل علی ظواہر ہاوصرف النصوص عن ظواہرہا بغیر صارف قطعی الحاد‘‘ اور یہاں کوئی صارف قطعی پایا نہیں جاتا ہے۔ ’’ومن یدعی فعلیہ البیان‘‘
دوم… ظاہر ضمیر غائب میں یہ ہے کہ غائب کی طرف پھرے اور آنحضرتﷺ مخاطب ہیں۔ اسی لئے اس رکوع میں اس آیت کے قبل وبعد جتنی ضمیریں آنحضرتﷺ کی طرف پھرتی ہیں وہ سب ضمیریں مخاطب کی ہیں۔ وہ یہ ہیں۔ ’’یسئلک، ان تنزل، الیک، من قبلک‘‘ اگر