کے یہ افعال اوّل دلیل ہیں۔ اس پر کہ ان کے پاس اصل مسئلہ یعنی ان کے مسیح موعود ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اصل بحث کے لئے دوسدین انہوں نے بنارکھی ہیں۔ ایک بحث حیات ووفات مسیح علیہ السلام۔ دوسرے نزول عیسیٰ علیہ السلام۔ جب دیکھا کہ ایک سد جو ان کی زعم میں بڑی راسخ تھی۔ ٹوٹنے کے قریب ہے۔ اس کے بعد دوسری سد کی جو ضعیف ہے۔ نوبت پہنچے گی۔ پھر اصل قلعہ پر حملہ ہوگا۔ وہاں کچھ ہے ہی نہیں تو قلعی کھل جاوے گی۔ اس لئے فرار مناسب سمجھا بعد انقطاع مباحثہ اور چلے جانے مرزاقادیانی کے احقر دوروز دہلی میں متوقف رہ کر روز شنبہ کو ڈاک گاڑی میں روانہ بھوپال ہوا۔
اب بنظر فائدہ عام یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قبل نقل ان رقعوں اور پرچون کے جو مباحثہ کے متعلق ہیں۔ ادلۂ حیات مسیح علیہ السلام جو مرزاقادیانی کے مباحثہ میں پیش کئے گئے اور نیز دیگر ادلہ واضح طور پر عام فہم عبارت میں لکھ دئیے جاویں۔ تاکہ ہر خاص وعام اس کو سمجھ سکے اور مرزاقادیانی کی طرف سے جو اعتراضات ان پر ہوئے اور خاکسار کی جانب سے جو جوابات دئیے گئے وہ بھی بطور خلاصہ لکھ دئیے جاویں اور مرزاقادیانی نے جو اپنی اخیر تحریر میں دو دلیلیں وفات کی لکھیں۔ وہ اور جو کچھ جواب اس کا خاکسار نے لکھا۔ اس کا بھی خلاصہ لکھ دیا جاوے۔ ’’اللہم انت عضدی ونصیری بک احول وبک اصول‘‘
دلیل اوّل
حیات مسیح علیہ السلام کے باب میں سورۃ نساء کی یہ آیت ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ ویوم القیمۃ یکون علیہم شہیدا (نسائ:۱۵۹)‘‘ اس آیت کا ترجمہ شاہ ولی اﷲ صاحب نے اس طرح پر کیا ہے۔ ونباشد ہیچ کس ازاہل کتاب الا البتہ ایمان آورد بہ عیسیٰ علیہ السلام پیش از مردن عیسیٰ علیہ السلام وروز قیامت باشد عیسیٰ علیہ السلام گواہ برایشان فائدہ میں یہ لکھا ہے۔ مترجم گوید یعنی یہودی کہ حاضر شوند نزول عیسیٰ علیہ السلام را البتہ ایمان آرند شاہ رفیع الدین صاحب نے ترجمہ اس طرح پر کیا ہے اور نہیں کوئی اہل کتاب سے۔ مگر البتہ ایمان لاوے گا۔ ساتھ اس کے پہلے موت اس کی کے اوردن قیامت کے ہوگا۔ اوپر ان کے گواہ۔
شاہ عبدالقادر صاحب نے اس طرح ترجمہ کیا ہے اور جو فرقہ ہے۔ کتاب والوں میں سے سو اس پر یقین لاویں گے۔ اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا۔ ان کا بتانے والا۔