حول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ ذرا اپنے پیر بھائی محمد اسلم کا الحق مر ملاحظہ فرمائیے۔ یہ اچھا آپ کا حسن ظن ہے کہ ہزارہا مسلمانوں کے سامنے جو واقعہ گزرا ہو اس کو ایک شخص خلاف اور بالکل غلط لکھے اور ایک عالم سید محدث پر بہتان باندھے اور اس کو سینکڑوں گندی گالیاں دے۔ مگر آپ اپنے حسن ظن سے اس کو الہام سمجھے جائیں۔ اگرچہ مرزاقادیانی کی حقیقت بالکل کھل چکی ہے۔ مگر عاجز کو چونکہ تحقیق حق اور اظہار باطل منظور ہے۔ اس لئے بہ نظر اتمام حجۃ آپ کو بحث کے لئے بلاتا ہوں۔ جب ہر طرح کی حجت تمام ہو جائے گی تو آپ کے اعلام کا جواب اور آپ کے مصنوعی مسیح کے ازالہ کا ازالہ بفضلہ تعالیٰ تیار ہے وہ طبع کیا جائے گا۔ مگر بہتر ہے کہ آپ سے اوّل تصفیہ کرالیا جائے۔ واﷲ باﷲ مجھ کو اظہار حق کے سوا کوئی اور خیال نہیں ہے۔ مگر آپ اس طرف توجہ فرماتے ہی نہیں۔ ناحق مسلمانوں کا وہ وقت عزیز اور روپیہ اس ناکارہ جھگڑے میں صرف کراتے ہو۔ جو غیرقوموں کے رد میں صرف ہوتا۔ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘
خیر اﷲتعالیٰ کافی ہے اور مسلمانوں کا وہی حامی ووالی ہے۔ جو چاہیں آپ طبع کریں اور جو چاہیں بنیں اور مرزاقادیانی کو بنائیں۔ پہلے بھی بہت لوگ بہت کچھ بن چکے ہیں اور جو کچھ ان کا انجام ہوا اس سے بھی آپ بے خبر نہیں ہیں۔ مرزاقادیانی نے وقت اور موقع اور مسلمانوں کی ابتری کا حال دیکھ کر یہ ڈھنگ سوچا اور یہ رنگ جمایا ہے۔ مگر اﷲ تعالیٰ جو اسلام اور اہل اسلام کا حافظ وناصر ہے وہ اب بھی ویسا ہی قدرت والا ہے۔ جیسا ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ ’’الاٰن کما کان‘‘ مگر حضرات! آپ خوب سمجھ لو کہ اگر آپ نے اس بارہ میں مناظرہ ومباحثہ نہ کیا تو ضرور اﷲتعالیٰ کی طرف سے اگر آپ اپنے خیال میں ٹھیک بھی کہتے ہو تو پوچھے جاؤ گے یا حضرت لب بام کی حالت ہے اﷲتعالیٰ سے ڈرو۔ سفر آخرت نزدیک ہے۔ اگر حق جان کر اس کو چھپاؤ گے تو اب منتقم حقیقی کے اخذ شدید سے ہر گز نہ بچو گے۔ بھلا یہ کیسی ایمانداری ہے کہ مصنوعی طور پر مشتہر کر دیا اور اپنے ہم طریق لوگوں کو خبریں پہنچا دیں کہ مولوی محمد حسین مناظرہ نہ کر سکے۔ مولوی سلامت اﷲ کو میں نے ساکت کر دیا۔ مولوی محمد بشیر کسی قدر میرے ہم خیال ہوگئے۔ میں نے تمام امصار ودیار کے علماء کو اشتہار دیا کوئی مقابل نہ آیا۔ حضرت حیا شعبۂ ایمان ہے۔ اگر دیانت وراست بازی کا کچھ خیال ہوتا تو ایسے فرضی ومصنوعی دعوے آپ لوگ مطبوع ومشہور نہ کرتے اور اگر کئے بھی تھے تو ضرور مناظرہ کے لئے تیار ہو جاتے اور اظہار حق میں کوئی عذر وحیا نہ کرتے۔ پہلے صفائی اور راست بازی سے مناظرہ وبحث کر لیتے۔ اگر کامیاب ہو جاتے تو شہرت