اے حضرات! آپ لوگوں کا دعویٰ کچھ چھوٹا سا دعویٰ نہیں ہے۔ گویا آپ سارے جہاں پر سبقت لے گئے۔ کوئی آپ میں سے نبی ومسیح وابن اﷲ بنا۔ کوئی فرشتہ کسی نے اپنا خطاب احسن المناظرین رکھا۔ کیا خوب تمام دنیا کے عہدے آپ ہی بانٹ لئے اور مرزاقادیانی نے تو کمال یہ کیا کہ پہلے ہی سے اپنے بعد اپنے بیٹے کو اپنا نائب بھی بنادیا اور اس کے حق میں پیشین گوئیاں بھی گھڑ دیں۔ نعوذ باﷲ!
شاید یہ سمجھے کہ میرے بعد نہیں معلوم خدا اس کو کیا بنائے۔ خود ہی جو کچھ چاہا بنا دیا۔ ’’اعوذ باﷲ السمیع العلیم من وسوسۃ الشیطان الرجیم‘‘ لیکن اپنے ان عہدوں پر اگر آپ لوگوں کو خود بھی اطمینان ہے تو اپنی اس قوت اور وسیع معلومات سے جلسۂ عام میں مناظرہ کر کے تمام خلق خدا کو فائدہ کیوں نہیں پہنچاتے۔ کیا یہ معلومات اور قوت صرف عوام ہی کے دھمکانے اور دھوکہ دینے کے لئے ہے۔ اﷲتعالیٰ سے ڈرو۔ مسلمان جس نازک حالت میں آج کل مبتلا ہیں۔ اہل علم کو اس سے خوف اور عبرت اور مسلمانوں پر رحم کرنا چاہئے۔ ان کی سچی خیرخواہی کرنی اور ان کو سنبھالنا چاہئے نہ کہ ان کے حمقاء کے حمق سے فائدہ اٹھانا اور ان کو مغالطہ اور دھوکے میں ڈالنا۔ میں نے اچھی طرح تحقیق کیا۔ مرزاقادیانی نے مسلمانوں کی یہ ابتر حالت دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ ان میں بعض حمقاء بھی ہیں۔ ان کے حمق سے فائدہ اٹھانا چاہا ہے۔ کیا یہ آپ لوگوں کا صاف اور صریح دھوکہ نہیں ہے کہ بڑے بڑے اشتہار اور رسائل طبع اور مشتہر کر دئیے کہ ہم گفتگو میں ہر طرح کی آزادی دیتے ہیں۔ تقریراً وتحریراً جس مسئلہ میں منظور ہو ہم سے گفتگو اور مناظرہ کر لو۔ کیونکہ مناظرہ اور مباحثہ تو ایک بہت بڑا آلہ تحقیق علوم اور تعلیم مسائل غیر علوم کا ہے۔ اس سے ترقی علوم ہوتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ملک بے سیاست اور مال بے تجارت اور علم بے بحث بالکل ہیچکارہ ہے اور اشتہاروں میں انعام بھی مقرر کر دئیے۔ مگر جب کوئی آپ کو بحث ومناظرہ کے لئے طلب کرتا ہے تو گھر میں مہندی لگا کر مائیوں بیٹھ جاتے ہو۔ کیوں جناب احسن المناظرین صاحب۔ یہ اشتہار صرف عوام ہی کے دیکھنے اور دکھانے اور سنانے کے لئے ہیں کہ بیوقوف لوگ سمجھیں کہ حضرت سے کوئی مناظرہ نہیں کر سکتا۔ یا کچھ خدا کا خوف کر کے اس پر عمل بھی کرنا چاہئے۔ آپ لوگوں کے دل میں کچھ اظہارحق کا خیال ہوتا تو ضرور مناظرہ کرنے کو تیار ہو جاتے اور مرزاقادیانی نے تو غضب یہ کیا کہ دہلی کے واقعہ کو جس کے ہزارہا مسلمان گواہ ہیں بالکل عکس خلاف واقع صریح صریح کذب وبہتان کے ساتھ اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کیا ہے۔ ’’لا حول