عام جلسہ میں کیوں نہیں ظاہر کرتے اور کیوں کچے عذر وبہانے اور غلط حیلے کر رہے ہو اور خاص آپ کا یہ عذر کہ بھوپال میں سرکار عالیہ دام اقبالہا کے بے جا تعصب کا خوف ہے۔ بالکل ہیچ ہے۔
حضرت! مجھے آپ کا وہ خط دیکھ کر کہ میں بحث کرنا نہیں چاہتا۔ مرزاقادیانی سے ان کے دعوے کی دلیل طلب کرو۔ بہت خوف آیا کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے۔ آپ احسن المناظرین بن گئے۔ آدمی سے فرشتہ ہوگئے۔ غلام احمد کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عہدۂ رسالت دلوادیا۔ امتی سے نبی بنادیا۔ افسوس فتنہ ڈالنے کے لئے تو آگے اور اصلاح کے کاموں میں پیچھے ہٹتے ہو۔ جن کا نمک کھاتے ہو ان پر بے جا تعصب کا الزام لگاتے ہو۔ آپ ایمان سے تو کہو سرکار عالیہ دام شوکتہا نے (اﷲتعالیٰ ان کے سایۂ عاطفت کو ہمیشہ ہمارے سر پر قائم رکھے) کبھی کسی اہل مذہب سے کوئی بے جا تعصب کیا ہے۔ جو آپ ہر ایک کے سامنے یہ غلط عذر کرتے ہو۔ حضور سرکار عالیہ دام سلطنتہا کی رعایا میں تو نصرانی اور ہنود سب آباد ہیں اور نوکر بھی ہیں۔ افسوس کہ وہ سرکار عالیہ کو متعصب نہ سمجھیں اور آپ مولوی کہلا کر بلکہ فرشتہ بن کر ناحق ان کی نسبت بے جا تعصب کے گمان فاسد کو اپنے دل میں رکھیں۔ آپ کے اس گمان پر افسوس۔ خدا سے ڈرو۔ اس منعمہ کی ناشکری نہ کرو جس کے الطاف خسروانہ اور کرم مادرانہ نے ایک عالم کو شکر گزار بنا رکھا ہے۔ ڈرو کہیں اس کفران نعمت کا عوض اسی عالم ہی میں نہ ہو جائے۔ ’’من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ‘‘
اے حضرات مولوی صاحب! یہ سرکار وہ عادلہ دوران اور حاتمہ زمان ہے جس کے حق میں حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ چھ سو برس پہلے یہ پیش گوئی فرماگئے ہیں گو حاسد کی سمجھ میں نہ آئے ؎
سر سرفرازان وتاج مہان
بہ دوران عدلش بنازاے جہان
اگر از فتنہ آید کسے درپناہ
ندارد جز ایں کشور آرام گاہ
ندیدم چنیں گنج وملک وسریر
کہ وقفست برطفل ودرویش وپیر
طلب گار خیر است امیدوار
خدایا امیدے کہ دارد برآر