ربیع الاوّل ۱۳۰۹ھ کو میں بھوپال سے روانہ ہوکر روزسہ شنبہ تاریخ شانزدہم ماہ مذکور قریب نواخت چہار ساعت کے دہلی میں داخل ہوا اور مرزاقادیانی کواطلاع اپنے آنے کی دی تو مرزاقادیانی نے مختلف رقعوں کے زریعے سے شروط میں تبدیل ذیل فرمائی کہ حیات مسیح علیہ السلام کا ثبوت آپ کو دینا ہوگا۔ بحث اس عاجز کے مکان پر ہو۔ جلسہ عام نہیں ہوگا۔ صرف دس آدمی تک جو معزز خاص ہوں۔ آپ ساتھ لاسکتے ہیں۔ مگر شیخ بٹالوی اور مولوی عبدالمجید ساتھ نہ ہوں۔ پرچوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہ ہو اور پہلا پرچہ آپ کا ہو۔ انتہی!
اب سب شروط کا قبول کرنا نہ تو خاکسار پر لازم تھا اور نہ میرے احباب کی رائے ان کے تسلیم کرنے کی تھی۔ مگر محض اس خیال سے کہ مرزاقادیانی کو کوئی حیلہ مناظرہ سے گریز کا نہ ملے۔ یہ سب باتیں منظور کی گئیں۔ بعد اس کے تاریخ نوز دہم ربیع الاوّل روز جمعہ بعد نماز جمعہ۔
مناظرہ شروع ہوا۔ خاکسار نے ان کے مکان پر جاکر مجلس بحث میں پانچ ادلہ حیات مسیح کے لکھ کر حاضرین کو سنادئیے اور دستخط اپنے کر کے مرزاقادیانی کو دے دیئے۔ مرزاقادیانی نے مجلس بحث میں جواب لکھنے سے عذر کیا۔ ہر چندجناب حاجی محمد احمد صاحب وغیرہ نے ان کو الزام نقض عہد ومخالفت شروط کا دیا۔ مگر مرزاقادیانی نے نہ مانا اور یہ کہا کہ میں جواب لکھ رکھوں گا۔ آپ لوگ کل دس بجے آئیے۔ ہم لوگ دوسرے روز دس بجے گئے۔ مرزاقادیانی مکان کے اندر تھے۔ اطلاع دی گئی تو مرزاقادیانی باہر نہ آئے اور کہلا بھیجا کہ ابھی جواب تیار نہیں ہوا۔ جس وقت تیار ہوگا اس وقت آپ کو بلالیا جاوے گا۔ پھر غالباً دو بجے کے بعد ہم لوگوں کو بلا کر جواب سنایا اور یہ کہا کہ اب مجلس بحث میں جواب لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ مکان پر لے جائیں۔ چنانچہ میں اس تحریر کو مکان پر لے آیا۔ اسی طرح چھ روز تک سلسلہ مباحثہ جاری رہا۔ چھٹے روز کہ تین پرچے میرے ہوچکے تھے اور تین پرچے مرزاقادیانی کے۔ مرزاقادیانی نے پہلے ہی بحث کو ناتمام چھوڑ کر مباحثہ قطع کیا اور یہ ظاہر کیا کہ اب مجھے زیادہ قیام کی گنجائش نہیں ہے اور زبانی فرمایا کہ میرے خسر بیمار ہیں۔ اس وقت ایک مضمون جو پہلے سے بنظر احتیاط لکھ رکھا تھا اور وہ متضمن تھا۔ اس امرپر کہ مرزاقادیانی کی جانب سے نقض عہد ومخالفت شروط ہوئی۔ مرزاقادیانی کی موجودگی میں سب حاضرین جلسہ کو سنادیا گیا۔ حاضرین جلسہ مرزاقادیانی کو الزام دیتے تھے۔ مگر مرزاقادیانی نے ایک نہ سنی۔ اسی روز تہیہ سفر کر کے شب کو دہلی سے تشریف لے گئے۔ مرزاقادیانی