الجواب نمبر ۸ میں ملاحظہ ہو اور مفصل شفاء للناس (یہ کتاب بھی احتساب کی اسی جلد میں موجود ہے) جواب اعلام الناس میں ہے۔ جو عنقریب شائع ہونے والا ہے اور عاجز کی اس تحریر کا یہ باعث ہوا کہ جب مرزاقادیانی دہلی تشریف لائے تو عاجز ان کی خدمت میں گیا اور کمال عجز سے دوستانہ طور پر یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر جناب کو صرف تحقیق مسائل منظور ہے تو یہ عاجز حاضر ہے اور اگر مولانا ممدوح سے گفتگو کی خواہش ہے تو یہ امر بھی بہت آسان ہے۔ اشتہار وغیرہ دینے اور دھوم مچانے کی حاجت نہیں۔ مگر مرزاقادیانی کی اصل غرض چونکہ سوائے شہرت کچھ نہ تھی۔ اس وجہ سے عاجز کی رائے منظور نہ ہوئی۔ کوئی بات نہ مانی اشتہار پر اشتہار دینے شروع کر دئیے اور اہل دہلی کی طرف سے اس کے جواب چھپے۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ مرزاقادیانی کے ایک معتقد نے مثنوی دعوت دہلی لکھی جس کا جواب کسی نے ’’صداقت دہلی‘‘ لکھا ہے۔ یہ سب تحریریں مطبع انصاری دہلی میں ملتی ہیں۔جس سے مفصل حال معلوم ہوسکتا ہے۔ اسی اثناء میں خاکسار نے نوٹس نمبر۱ لکھا اور اس میں مولوی محمد احسن صاحب (قادیانی) اور مولوی حکیم نورالدین صاحب (قادیانی) کو اس لئے مخاطب کیا کہ مرزاقادیانی کے مشن کے یہ دونوں صاحب اعلیٰ درجہ کے ممبر ہیں۔ مرزاقادیانی نے عاجز کے نوٹس کا کچھ جواب نہیں دیا۔ اسی خیال سے یہ عاجز بھوپال گیا اور احسن المناظرین صاحب سے جو تحریر ہوئی وہ آپ دیکھ ہی لوگے۔ بھوپال سے آکر عاجز بہ تقریب جلسہ انجمن حمایت الاسلام لاہور گیا اور وہاں نوٹس نمبر۲ شائع کیا۔ اتفاقاً جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب بھی لاہور میں آگئے اور نوٹس نمبر۲ عاجز کا ان کو پہنچ گیا اور عاجز خود بھی ان کی خدمت میں کئی مرتبہ حاضر ہوا۔ مگر خوبی اتفاق سے ان کو فرصت بالکل نہ ہوئی جو گفتگو ہوتی۔ چنانچہ ایک روز زبدۃ الحکما جناب حکیم غلام نبی صاحب (قادیانی) کے مکان پر حکیم صاحب کی دعوت تھی۔ عاجز بھی بعد وقت اکل طعام وہاں حاضر ہوا۔ کرنیل عطاء اﷲ خان صاحب (قادیانی) نے عاجز سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ مولوی صاحب کاغذی گھوڑے تو آپ نے بہت دوڑائے۔ ہم نے آپ کے نوٹس بھی دیکھے۔ اس وقت اتفاق سے آپ دونوں صاحب یہاں موجود ہیں۔ حکیم صاحب (قادیانی) سے کچھ گفتگو کیجئے۔
میں نے عرض کیا کہ جس بات کو میں حق جانتا ہوں اس کے بیان کرنے اور اس میں کلام کرنے سے مجھے کب تأمل ہے۔ مگر حکیم صاحب کی اجازت ضرور ہے۔ آپ حکیم صاحب کو راضی کریں۔ مجھے کچھ عذر نہیں حکیم صاحب نے فرمایا کہ میں بھی مرزاقادیانی کے کلام کو حق جانتا