ہوں اور میرا یہ اعتقاد ہے کہ ان کا کوئی ارشاد غلط نہیں ہے۔ مگر مولوی صاحب (عبدالمجید دہلوی) کو فرصت ہے مجھے (نورالدین) فرصت نہیں اور نہ میں تقریر کو پسند کرتا ہوں۔ جانبین سے تحریریں ہو رہی ہیں۔ آپ لوگ تأمل کریں اور طرفین کی تحریروں کو ملاحظہ فرمائیں۔ عاجز کو اس امر کے اظہار میں بھی تأمل نہیں ہے کہ حکیم صاحب نہایت درجہ وسیع الاخلاق اور لائق آدمی ہیں۔ جس طرح مرزاقادیانی ومولوی محمد احسن کی کج اخلاقی اور درشتی کا میں شاکی ہوں اسی طرح حکیم صاحب کے اخلاق کی شکر گزاری بھی میرا ذمہ ہے۔ حکیم صاحب عاجز سے اچھی طرح خندہ پیشانی سے ملے اور کمال مہربانی سے پیش آئے۔ جیسا کہ شرافت کا مقتضاء ہے اور ان کی مجلس کا رنگ بھی ایسا نہ تھا۔ جیسا کہ دہلی میں مرزاقادیانی کی مجلس کا رنگ دیکھا کہ جب کوئی ان کے پاس گیا ادھر ادھر سے حواریوں نے آوازے کسنے شروع کئے اور تبرّے اڑانے لگے۔ جو شریف گیا، افسردہ ہی ہوکر آیا اور جو ذرا کوئی بولا، مجلس سے نکلوادیا۔ چنانچہ مولوی محمد مصحح مطبع انصاری کے ساتھ جو بے تہذیبی برتی گئی وہ مرزاقادیانی کی مجلس کا ایک ادنیٰ نمونہ ہے۔ مرزاقادیانی کی مجلس میں کئی شخص تو ایسے تھے جن کی زبان قابو سے باہر تھی۔ جہاں کوئی شریف گیا اور ٹانگ لی، وہ اپنی شرافت سے چپ ہوا اور انہوں نے قہقہہ اڑایا کہ ہم نے شرمندہ کر دیا۔ آخر کار اس کا نتیجہ کسی قدر اپنے ہم پلہ لوگوں سے ان کو مل گیا۔
مجھے یاد آیا کہ بھوپال سے نواب ممتاز الدولہ مولوی سید عبدالحئی خان صاحب انہیں ایام میں تشریف لائے تھے۔ انہوں نے مرزاقادیانی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ میں ان کو لے گیا۔ ان کے ہمراہ جناب حکیم حاتم علی صاحب رئیس آگرہ اور جناب منشی عبدالعزیز رئیس دھولپور بھی تھے۔ جس وقت یہ صاحبان مرزاقادیانی کے مکان پر پہنچے حواریوں نے اپنی عادت کے موافق آوازے کسنے اور تبرّے کرنے شروع کئے اور ان کے سامنے ایسے ناملائم اور بے جا الفاظ کہے کہ وہ حیرت سے منہ دیکھ کر رہ گئے اور مجھے مفت شرمندہ ہونا پڑا۔ آخر میں نے مرزاقادیانی سے عرض کیا کہ حضرت مورد عتاب تو اہل دہلی ہیں۔ یہ لوگ تو مسافر آپ کی زیارت کو آئے ہیں۔ ان سے تو براہ مہربانی دو باتیں کر لیجئے۔ اس وقت جناب کو ہوش آیا اور فرمایا کہ کون ہیں۔ کہاں سے آئے ہیں؟ مگر حواری اس وقت بھی خاموش نہ ہوئے۔ میں کئی بار حکیم صاحب (نورالدین) کی مجلس میں گیا۔ کبھی کوئی لفظ کسی سے ایسا نہ سنا جو باعث ملال ہوتا۔ یا طبیعت کو ناگوار گذرتا۔ حکیم صاحب کی مجلس میں کبھی کوئی گفتگو کسی کی زبان پر ایسی نہیں آئی جس سے بوئے ملال آتی۔ عاجز کی رائے