عوض مرزاقادیانی کو ان کے مکان پر جاکے بیحد خوشامد کرنی پڑی۔ پھر بھی مولوی صاحب نے مرزاقادیانی کا پیچھا نہ چھوڑا۔ خوشامد کی ندامت روکن میں پلے بندھی بات یہ ہے۔ بگڑنے والی بات جس قدر بناؤ بگڑتی ہی چلی جاتی ہے۔ کسی طرح بناؤ نہیں بنتی۔ نہیں بنتی۔ اب مرزاقادیانی نے چند حواریوں کو بھی بلالیا اور کسی کے مشورہ یا اپنی رائے سے کل اہل دہلی خاص کر مولانا صاحب پر بے حد سب وشتم کرنا شروع کیا۔ ۱۷؍اکتوبر۱۸۹۱ء کے اشتہار میں ایسے ۸۲لفظ ہیں۔ جو کوئی شریف کسی کو نہیں کہہ سکتا مگر واہ جناب مولانا صاحب آپ کا تحمل کہ ان سب گالیوں کے جواب میں یہ ایک شعر لکھ دیا۔
دشنام خلق رانہ دہم جزدعا جواب
ابرم کہ تلخ گیرم وشیریں عوض دہم
مرزاقادیانی اور ان کے اتباع نے یہ پالیسی کہ اہل دہلی پر سب وشتم کیا جاوے۔ اس واسطے شاید اختیار کی تھی اور اب تک اس کو نباہ رہے ہیں کہ ان کے فرقے کی نظر میں اہل دہلی کی وقعت کم ہو جاوے اور مرزاقادیانی کی ناکامی بڑی چیز نہ دکھائی دے اور جہاں تک غور کرو یہ پہلو اچھا سوجھا۔ مگر واقعی یہ ناکامی اتنی بڑی چیز ہے کہ مرزاقادیانی کی ہر تحریر سے اس کا افسوس ٹپک رہا ہے اور ہر فقرہ سے حسرت برس رہی ہے اور عاجز کے خیال میں مرزاقادیانی اور ان کے اتباع کا عام اہل دہلی پر اور خاص کر مولانا ممدوح پر تبرّا کرنا ایک حکمت الٰہی کا تقاضا تھا۔ جس نے ان کو اس درجہ سب وشتم پر لاڈالا۔
اور وہ یہ ہے ؎
چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد
میلش اندر طعنۂ پاکان برد
مرزاقادیانی نے بہت سے مسائل کو الٹ پلٹ کیا ہے۔ مگر ان میں سے دوپر بہت زور دیا ہے۔ ایک وفات حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام، دوسرے مرزاقادیانی کا مسیح موعود ہونا، مسئلہ اوّل کی نسبت رسالہ الحق الصریح فی اثبات حیات المسیح جس کا اوّل حصہ مولانا محمد بشیر صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ نے بہت کافی ثبوت کے ساتھ لکھا ہے۔ جو مطبع انصاری میں چھپ کر تیار ہوگیا (یہ رسالہ بھی احتساب کی اسی جلد میں شامل اشاعت ہے۔ فلحمدلللّٰہ) اور دوسرا حصہ مؤلفہ مولوی جمیل احمد زیر طبع ہے اور مسیح موعود ہونے کی بحث مجمل طور سے عاجز کے خط نمبر۴ کے جواب الجواب