مرزاقادیانی نے دعوؤں کو بذریعہ رسائل واشتہارات بارہ سال کے عرصہ میں بہت کچھ شائع کیا۔ مگر ان کا ذکر خیر ملک پنجاب سے بہت ہی کم باہر نکلا۔ جب اس طرح کام نہ چلا تو مرزاقادیانی خود نکلے اور پنجاب کے بڑے بڑے شہروں میں دورہ کرنے لگے۔ گو پنجاب میں مرزاقادیانی کے کچھ لوگ معتقد ہیں۔ مگر باوجود کوشش بسیار اپنے مقصد کے حاصل کرنے میں مرزاقادیانی کا نمبر ناکامیابی کے بہت ہی قریب رہا اور ہے۔ ’’وما تشاؤن الا ان یشاء اﷲ‘‘ شہر دہلی جس طرح ایک مدت بادشاہان سلف کا دار الخلافہ رہا ہے۔ اسی طرح بیت العلوم بھی اس کا نام ہے اور واقعی یہ وہ مقام ہے کہ بڑے بڑے دوردراز سفر طے کر کے لوگ صرف اس کو دیکھنے آتے ہیں اور جن علماء کی لیاقت علوم کی چار دانگ ہندوستان میں دھاک اور کمال ہنر وفنون کے تمام عالم میں دھوم ہے۔ وہ اسی خاک میں سوتے ہیں۔ مبارک یہ زمین جس میں رنگ برنگ کے گل پھول ہیں جو اپنے رنگ وبو سے عالم کو معطر کر گئے۔ حقیقت میں یہ وہ جگہ ہے جس کے درودیوار سے یہ صدا آتی ہے۔ ’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘ اور جس کے ہر ہر برگ شجر پر یہ نظر آتا ہے۔ ’’فانظروا یااہل الانظار‘‘ ہندوستان میں جس قدر علوم کی خاص کر علم دین کی ندیاں جاری ہیں۔ اگر چشم غور سے دیکھو گے ان کا چشمہ ضرور دہلی کو پاؤ گے۔ مرزاقادیانی نے جس قدر اور جتنا پڑھا ہے۔ گل علی شاہ سے اور وہ بھی ایک مدت دہلی میں رہے اور جو کچھ پڑھا یہیں پڑھا۔ انہیں وجوہ سے مرزاقادیانی کو یہ خیال ہوا کہ اس نامور شہر میں چل کر چند روز ’’ہل من مناظر‘‘ کا ڈنگا بترکیب بجائیے۔ اگر وہاں کچھ بھی کامیابی ہوگئی تو گویا مدینۃ المقصود کا فتح الاباب ہے۔
یہ خیال مرزاقادیانی کو دہلی لے گیا۔ مگر افسوس کہ اس ارادہ میں وہ بالکل کامیاب نہ ہوئے اور گو انہوں نے دہلی میں پہلا اشتہار ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو بہت ہی سچ سمجھ کر بنام شیخ الکل جناب مولانا مولوی سید نذیر حسین صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ کے دیا۔ جس کی عمر قریب سو برس کی ہے اور بسبب پیرانہ سالی کس طرح مرزاقادیانی کو یہ امید نہ تھی کہ وہ مناظرہ کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ مگر خلاف امید وہ بڑی مستعدی سے اپنی جوان ہمت کے ساتھ تیار ہوگئے۔ چنانچہ ان کے مطبوعہ خطوط سے ظاہر ہے۔
دوسری غلطی مرزاقادیانی سے یہ ہوئی جس کا ان کو ۶؍اکتوبر۱۸۹۱ء کے اشتہار میں خود اقرار کرنا پڑا کہ ۲؍اکتوبر کے اشتہار میں مولوی ابو محمد عبدالحق صاحب کو بھی شریک کر دیا۔ جس کے