واسطے ایک مقام اس کا اعلیٰ علیین ہے اور دوسرا اسفل السافلین۔ ’’ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب‘‘ چونکہ مجھے اس بیان میں اختصار مدنظر ہے۔ اس لئے نظائر وامثال سے تو حذر ہے۔ زمانہ کی تاریخ پر جس کی نظر غائر ہے۔ اس پر بخوبی ظاہر ہے کہ ہر وقت اور ہر زمانہ میں اس کی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں۔ انسان کی حالت ہی کچھ اس ڈھب کی ہے کہ اﷲتعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت وتوفیق صبر وقناعت میں اس کی رفیق نہ ہو تو کسی ترقی پر اس کو بس نہیں ہوتی اور اپنے آپے میں نہیں سماتا۔ بادشاہوں پر خروج کرنے اور بادشاہ بننے کا خیال تو عام لوگوں میں رہا ہے اور رہتا ہے۔ ولی، غوث، قطب، ابدال ہزاروں بنے۔ نبوت پر بھی بہت ہی لوگوں نے ہاتھ مارے، خدائی کے دعویٰ کئے، عیسیٰ اور محمد بننے کی حرص تو اس قدر لوگوں نے کی جن کا شمار نہیں ہوسکتا۔
اسی کے قریب قریب مرزاغلام احمد قادیانی کا حال ہے کہ اوّل جناب ولایت کے مدعی ہوئے۔ پھر حضرت غوث الاعظمؓ کی برابری کا خیال سمایا۔ پھر ان سے بلکہ تمام اولیاء اﷲ سے جو اس وقت تک گذرے ہیں تفوق اور بڑائی کا اشتہار دیا کہ میں سب اعلیٰ اور اولیٰ ہوں۔ پھر کبھی مثیل آدم اور کبھی مثیل نوح، کبھی مثیل ابراہیم ویوسف اور کبھی مثیل موسیٰ وداؤد علیہم الصلوٰۃ والسلام ہوئے۔ یہاں تک کہ درجہ بدرجہ مدت تک مثیل عیسیٰ علیہ السلام رہے۔ اب حضرت کے خیال نے اور ترقی کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارکر ان کے عہدہ پر ہاتھ بڑھایا اور مسیح موعود بن بیٹھے۔ لیکن یہ نہ سمجھے جس کو خدا نہ بنائے وہ کیا بن سکتا ہے۔
رباعی
دوں ہمت اگر بال زرے پیدا کرد
چوں مور برائے خود پرے پیدا کرد
کئی مرتبہ سفلہ فزاید اسباب
عیسیٰ نشود ہر کہ خرے پیدا کرد
یہ سب دعویٰ مرزاقادیانی کے اشتہارات ورسائل سے ظاہر ہیں۔ دیکھو (ازالہ اوہام ص۲۵۳، خزائن ج۳ ص۲۲۷، توضیح مرام ص۱۸،۱۹، خزائن ج۳ ص۵۹ ،۶۰ ملخص، فتح الاسلام ص۱۵تا۱۹، خزائن ج۳ ص۱۱،۱۲ ملخص) چونکہ مرزاقادیانی ترکیب اور تدریج سے چلے ہیں۔ اس لئے فرماتے ہیں کہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ میرا نیا نہیں ہے۔ براہین احمدیہ میں اس کی تمہید میں کر چکا تھا۔ لوگ نہیں سمجھے