الحمد ﷲ الذی امر فی محکم کتابہ بالدعوۃ الیٰ سبیلہ بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ والجدال بالتی ہی احسن والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الذی جاہد حق جہادہ فی اماتۃ الکفر والفسق والفاحشۃ ماظہر منہا وما بطن وعلیٰ اٰلہ واصحابہ الذین بلغوا الدین کما سمعوا من العقائد والفرائض والسنن وسعوا بالایدی والالسنۃ والقلوب فے تغییر المنکرات والبدع والفتن۰ اما بعد!
یہ کیفیت ہے اس مناظرہ کی جو میرے اور مرزاغلام احمد قادیانی مدعی مسیحیت کے درمیان میں بمقام دہلی واقع ہوا۔ مرزاقادیانی نے دہلی میں آکر دو اشتہار ایک مطبوعہ دوم اکتوبر ۱۸۹۱ئ۔ دوسرا مطبوعہ ششم اکتوبر ۱۸۹۱ء صدر بمقابلہ جناب مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی مداﷲ ظلہم العالی کے شائع کئے اور طالب مناظرہ ہوئے۔ وہ دونوں اشتہار خاکسار کے بھی دیکھنے میں آئے۔ خاکسار نے محض بنظر نصرت دین وسنت وازالہ الحاد وبدعت قصد مناظرہ مصمم کر کے جواب اشتہار مرزاقادیانی کے پاس بوساطت جناب حاجی محمد احمد صاحب دہلوی کے بھیجا اور اس جواب میں مرزاقادیانی کے سب شروط کو تسلیم کر کے صرف شرط ثالث میں قدرے ترمیم چاہی۔ مرزاقادیانی نے بھی اس ترمیم کو قبول کیا۔ بعد ترمیم کے یہ تین شرطیں قرار پائیں۔
اوّل… یہ کہ امن قائم رکھنے کے لئے سرکاری انتظام ہو۔
دوسرا… یہ کہ فریقین کی بحث تحریری ہو۔ ہر ایک فریق مجلس بحث میں سوال لکھ کر اور اس پر اپنے دستخط کر کے پیش کرے اور ایسا ہی فریق ثانی لکھ کر جواب دے۔
تیسرا… یہ کہ اوّل بحث حیات مسیح علیہ السلام میں ہو۔ اگر حیات ثابت ہو جائے تو مرزاقادیانی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ خود چھوڑ دیں گے اور اگر وفات ثابت ہو تو مرزاقادیانی کا اصل دعویٰ یعنی عدم نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مرزاقادیانی کا مسیح موعود ہونا ثابت نہ ہوگا۔ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول اور مرزاقادیانی کے مسیح موعود ہونے میں بحث کی جاوے گی اور جو شخص طرفین میں سے ترک بحث کرے گا اس کا گریز کرنا سمجھا جاوے گا،۔ جب تصفیہ شروط کا ہوگیا تو جناب حاجی محمد احمد صاحب نے حسب ایماء مرزاقادیانی کے خاکسار کو طلب کیا۔ چنانچہ شب شانز دہم