حاشیہ جات
۱؎ مقصود اس مقام پر ابطال ہے۔ اوّل جمیع احتمالات کا جو مفسرین لکھتے ہیں۔ سوائے معنی مختار راقم کے باعتبار ان کے ظاہر معنی کے اور نیز ابطال معنی کا جن کو مرزاقادیانی اور ان کے اتباع زمانہ تحریر ہذا تک لکھ چکے ہیں۔ پس جاننا چاہئے کہ وہ احتمالات جو مفسرین نے لکھے ہیں وہ تین ہیں۔ ایک یہ کہ ضمیر موتہ کی کتابی کی طرف عائد ہے اور ضمیربہ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف دوسرا یہ کہ ضمیر موتہ کی کتابی کی طرف عائد ہے اور ضمیر بہ کی آنحضرتﷺ کی طرف تیسرا یہ کہ ضمیر موتہ کی کتابی کی طرف عائد ہے اور ضمیر بہ کی اﷲتعالیٰ کی طرف اور ان تینوں احتمالالت کا مرجع ایک ہے۔ جیسا کہ تفسیر مظہری وغیرہ میں مرقوم ہے اور ظاہر معنی اس کے یہ ہیں کہ نہیں کوئی اہل کتاب میں سے۔ مگر البتہ ایمان لاتا ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا آنحضرتﷺ یا اﷲتعالیٰ پر اپنے مرنے سے پہلے یعنی وقت زہوق روح کے اور اس معنی کا یہی مطلب علماء سمجھے ہیں۔ حافظ فتح الباری میں نقلاً عن النووی لکھتے ہیں۔ ’’وہذا المذہب اظہر لان الاوّل یخص الکتابی الذی یدرک نزول عیسیٰ وظآہر القرآن عمومہ فی کل کتابی فی زمن نزول عیسیٰ وقبلہ انتہی‘‘ اور ایسا ہی قسطلانی نے لکھا ہے۔ فتح البیان میں ہے۔ ’’وقال الزجاج ہذا القول بعید لعموم قولہ تعالیٰ وان من اہل الکتاب والذین یبقون یومئذ یعنی عند نزولہ شرذمۃ قلیلۃ منہم تفسیر مظہری میں ہے۔ وکیف یصح ہذا التاویل مع ان کلمۃ ان من اہل الکتاب شامل للموجودین فی زمن النبیﷺ سواء کان ہذا الحکم خاصابہم اولاً فان حقیقۃ الکلام للحال ولاوجہ لان یرادبہ فریق من اہل الکتاب یوجدون حین نزول عیسیٰ عمر فالتاویل الصحیح ہوا الاوّل انتہی‘‘ اور قاعدہ مذکورہ بے شک ان معانی کے ابطال کے لئے کافی ہے رہا ابطال اس معنی کا باعتبار دوسرے مطلب کے جو غیرظاہر ہے اور اس احتمال کا جو مرزاقادیانی نے بعد کو پیدا کیا۔ سو وہ اس تقریر سے ہوتا ہے جو مقدمہ اور تحریر چہارم میں مذکور ہے۔ بلکہ وہ تقریر سب احتمالات عقلیہ کے ابطال کے لئے کافی ہے۔
۲؎ فتح البیان میں ہے۔ ’’وقد اختار کون الضمیرین لعیسی ابن جریر وبہ قال جماعۃ من السلف وہو الظاہر لانہ تقدم ذکر عیسیٰ وذہب کثیر من التابعین فمن بعدہم الیٰ ان المراد قبل موت عیسیٰ کماروی عن ابن عباس قبل ہذا انتہی ملخصاً‘‘ فتح الباری میں ہے۔ ’’ونقلہ عن اکثر اہل العلم درجحہ