قادیانی نے نیا فتنہ کیا ہے برپا
میں مسیحا ہوں وہ کہتا ہے مسیحا کیا ہے
یک قلم زندگی ورفع ونزول عیسیٰ
سب کا منکر ہے اس آفت کا ٹھکانا کیا ہے
صاف کہتا ہے کہ نجار کے بیٹے تھے مسیح
ہوئے بے باپ کے پیدا یہ عقیدہ کیا ہے
کی ہے وہ ہرزہ درائی کہ عیاذاً باﷲ
ٹکڑے ٹکڑے ہو دل سن کے کلیجا کیا ہے
پہلے ملا تھا پھر الہامی بنا پھر عیسیٰ
قابل دید تماشا ہے یہ مرزا کیا ہے
کی ہے کیا جلد ترقی پہ ترقی حاصل
وہ اے ہمت عالی ترا کہنا کیا ہے
حوصلہ اس کا بمعنی یہی کہتا ہے ابھی
دیکھتے جائیں ابھی آپ نے دیکھا کیا ہے
دیکھتے ہیں جو دکھاتا ہے تو ہم کو یارب
سنتے ہیں تو جو سناتا ہے بس اپنا کیا ہے
صرف تحصیل زرومال ووجاہت ہے غرض
اور اس دعویٰ باطل کا نتیجہ کیا ہے
مومنو ابلہ فریبی میں نہ آنا اس کے
ایک ہی فتنہ ہے تم نے اسے سمجھا کیا ہے
نہ سمجھ بیٹھنا اس کو کہیں عیسیٰ کا مثیل
دیکھو قرآن واحادیث کا منشاء کیا ہے
جائے وہنگام وعلامات نزول عیسیٰ
سب احادیث میں موجود ہیں چھوٹا کیا ہے
کوئی انصاف سے دیکھے اگر اس نامہ کو
ابھی کھل جائے وہ سچا ہے کہ جھوٹا کیا ہے
موجزن اس میں ہیں حقیقت حق کی مضمون
یہ رسالہ ہے خدا جانے کہ دریا کیا ہے
ہوا قرآن سے اثبات حیات عیسیٰ
یہ کرامت ہے کہ اعجاز مسیحا کیا ہے
رہنما ہے یہ کتاب اہل سعادت کے لئے
جو ازل کے ہیں شقی تذکرہ ان کا کیا ہے
کٹ گئے دشمن دین دیکھ کے اس کے مضمون
سیف مسلول کہوں اس کو تو بیجا کیا ہے
آخری وقت کے فتنوں سے بچانا یا رب
ہے یہی دل کی مراد اور تمنا کیا ہے
قطعہ تاریخ طبع کتاب منہ سلمہ اﷲ تعالیٰ
ایک اک دعویٰ بے اصل مسیح کاذب
خوب آیات واحادیث سے مردود ہوا
پڑھ کے اس نامہ کو دیندار یہی کہتا ہے
نکلا ارمان مرا حاصل مرا مقصود ہوا
خدع مرزا کا کھلا لوگ ضلالت سے بچے
تیری تائید سے یہ اے مرے معبود ہوا
طبع کے سال کا اس نامہ کے القاء مجھ کو
مثبت زندگی عیسیٰ موعود ہوا
۱۳۰۹ھ