اور احقر کو مطلق موقع جواب کا نہ دیا۔ کیا یہی انصاف ہے۔ اگر آپ کو تیسرے پرچہ پر قطع بحث منظور تھی تو دلیل وفات دوسرے ہی میں لکھ دی ہوتی۔ کیا مسیح موعود کی ایسی دیانت ہونی چاہئے۔ ہاں مسیح کاذب کے لئے یہی زیبا ہے۔ سوائے اس کے آپ تحریر اخیر میں چند امور کا مطالبہ فرماتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’بلکہ اگر وہ اپنے معنوں کو قطعیۃ الدلالۃ بنانا چاہتے ہیں تو ان پر فرض ہے کہ ان دونون باتوں کا قطعی طور پر فیصلہ کر لیں۔‘‘
دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’پھر مولوی صاحب کے پاس باوجود اس دوسرے معنی ابن عباسؓ اور عکرمہ کے کون سی قطعی دلیل اس بات پر ہے کہ اس ذکر اہل کتاب سے وہ لوگ قطعاً باہر رکھے گئے ہیں اور کون سی حجت شرعی یقینی قطعیۃ الدلالۃ اس بات پر ہے کہ اہل کتاب سے مراد اس زمانہ نامعلوم کی اہل کتاب ہیں۔ جس میں تمام وہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں گے۔‘‘
تیسری جگہ لکھتے ہیں: ’’اب فرمائیے کیا اس تحریف پر کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل مل سکتی ہے۔‘‘
چوتھی جگہ ہے: ’’اگر کسی حدیث صحیح میں ایسی تحریف کی اجازت ہے تو بسم اﷲ دکھلائیے۔‘‘
پانچویں جگہ ہے: ’’آپ اگر سچے ہیں تو اس کتاب اصح الکتب سے کوئی حدیث اس پایہ کی پیش کریں۔‘‘
وغیرہ وغیرہ مقامات میں چند امور کا آپ مطالبہ کر رہے ہیں اور یہاں یہ ارشاد ہے کہ یہی پرچے بلاکم وبیش چھپ جائیں گے اور ہم دونوں میں سے کسی کو اختیار نہ ہوگا کہ غائبانہ طور پر کچھ اور زیادہ یا کم کریں۔ یہ اجتماع المتخالفین کیسا ہے۔
قولہ… یہ بھی یاد رہے کہ تین پرچوں پر طبعی طور پر فریقین کے بیانات ختم ہو گئے ہیں۔
اقول… یہ غلط محض ہے اور دعویٰ بلادلیل اور کذب صریح ہے۔ عقل ونقل کے مخالف کیونکہ میرے بیانات کا ختم ہونا آپ کو کیسے معلوم ہوا۔ علاوہ اس کے ابھی تک اس خیال سے کہ یہ مقدمہ آپ کے مسلمات سے ہے کہ قبل موتہ کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ دلیل تحقیقی اس پر قائم نہیں کی گئی تھی۔ آپ کے مسلمات پر بنارکھی گئی تھی اور یہ ارادہ تھا کہ اگر آپ مطالبہ دلیل تحقیقی کریں گے تو دلیل تحقیقی بیان کی جاوے گی۔ سو آپ نے ص۴ تحریر اخیر میں مطالبہ تو کیا اور جواب کا انتظار آپ نہیں کرتے ہیں۔ کیا یہی قطعی طور پر فریقین کے بیان پر ختم ہونا ہے تو یہ ظلم صریح ہے۔ ’’وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون‘‘