کے لئے لیجئے یا نہ لیجئے۔ خالص مستقبل کی بحث تو صرف اس لئے کی گئی تھی کہ بغیر مستقبل کے معنی فاسد ہوتے ہیں اور فساد معنی درصورتحال واستمرار ظاہر ہے اور احتمال ماضی تو صریح البطلان ہے۔
قولہ… اگر آپ کے ساتھ کوئی عامی اور بے خبر مفسر ہوگا۔ ہمارے ساتھ اﷲ جل شانہ اور اس کا پیارا اور برگزیدہ رسول ہے۔
اقول… سب مفسرین کو جن میں صحابہ میں سے ابن عباسؓ وابوہریرہؓ اور من بعد الصحابہ میں سے حسن بصری وضحاک وابن جریج وربیع بن انس وقتادہ ومطروراق وابومالک وعبدالرحمن بن زید بن اسلم ووہب بن منبہ ومحمد بن اسحق وابن جریر وابن کثیر اور صاحب تفسیر درمنثور وکشاف ومعالم التنزیل وبیضاوی ومدارک وغیرہم سب داخل ہیں۔ ان سب کو عامی وبے خبر کہنا نہایت گستاخی وبے ادبی ہے ؎
چون خدا خواہد کہ پردہ کس درد
میلش اندر طعنۂ پاکان برد
اور ہم نے اوپر ثابت کر دیا کہ نہ اﷲتعالیٰ آپ کے ساتھ ہے اور نہ اس کا رسول۔ بلکہ اﷲتعالیٰ اور رسول اﷲﷺ ہمارے ساتھ ہیں۔
قولہ… کیا اس حدیث کے موافق جو کتاب التفسیر مین امام بخاری نے لکھی ہے الیٰ قولہ لیکن ایسا نہ کریں کہ آیت لیؤمنن کی طرح کوئی ذوالوجوہ اور محجوب المفہوم حدیث پیش کر دیں۔
اقول… ان سب امور کے جواب سے بفضلہ تعالیٰ ہم فارغ ہوگئے۔ الحمدﷲ علیٰ ذالک! اب ہم اس مقام پر اپنی دلیل کا آپ کی دلیل سے موازنہ کرتے ہیں تاکہ سب اہل انصاف پر ظاہر ہو جائے کہ آپ کی دلیل کی ترجیح کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اگر آپ کی دلیل کی ترجیح کی یہ وجہ ہے کہ توفی سے ظاہر موت ہے تو ہم بھی اوپر ثابت کر آئے کہ ظاہر آیت ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ سے حیات ہے اور اگر یہ وجہ ہے کہ ’’انی متوفیک‘‘ کی تفسیر جناب رسول اﷲﷺ نے حدیث بخاری میں اس طرح فرمائی ہے کہ ’’فاقول کما قال العبد الصالح‘‘ تو میں کہتا ہوں کہ حدیث بخاری میں تفسیر اس آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ کے جناب رسول اﷲﷺ نے اس طرح فرمائی ہے۔ ’’والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتی لا یقبلہ احد حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیرا من