الدنیا ومافیہا‘‘ کیونکہ اس حدیث سے صاف خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول جسمانی ثابت ہوتا ہے اور نزول فرع صعود کی ہے تو ثابت ہوا کہ صعود بھی جسمانی ہوا۔ پس یہ حدیث صعود جسمانی کے اثبات کے لئے کم نہیں ہے۔ حدیث ’’فاقول کما قال العبد الصالح‘‘ سے اثبات وفات کے لئے اگر کہا جائے کہ حدیث نزول بسبب معارضہ آیت انی متوفیک کے مصروف عن الظاہر ہے تو ہم کہیں گے کہ حدیث ’’فاقول کما قال العبد الصالح‘‘ بھی بسبب معارضہ آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ کے مصروف عن الظاہر ہے۔ اگر وجہ ترجیح یہ ہے کہ بخاری میں ہے کہ ابن عباسؓ نے متوفیک کی تفسیرممیتک کی ہے تو بخاری میں ہے کہ ابوہریرہؓ نے ’’وان من اہل الکتاب‘‘ کی ایسی تفسیر کی ہے کہ جس سے قطعی حیات ثابت ہوتی ہے۔ اب ہماری دلیل کے وجہ ترجیح سنئے۔ ہم نے قطعی طور پر ثابت کر دیا کہ ضمیر قبل موتہ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ہے۔ جس سے قطعاً حیات ثابت ہے اور آپ سے لفظ توفی کا بمعنی موت حقیقی ہونا ثابت نہ ہوسکا۔ کیونکہ مدار اس کا اس امر پر ہے کہ آپ کوئی ایسی آیت یا حدیث پیش کریں کہ وہاں بلاقیام قرینہ موت مراد ہو۔ ’’وانی لکم ہذا حدیث والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم‘‘ صاف نزول جسمانی پر دلالت کرتی ہے اور آیت انی متوفیک اس کے معارض نہیں ہے۔ بخلاف ’’فاقول کما قال العبد الصالح‘‘ کے کہ یہ وفات پر مطلق دلالت ہی نہیں کرتی۔ کیونکہ اس میں لفظ تشبیہ موجود ہے اور بغرض دلالت آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ اس کی معارض وصارف عن الظاہر ہے اور تفسیر ابن عباس پر تفسیر ابوہریرہؓ کو دو طرح ترجیح ہے۔
اوّل… تو تفسیر ابن عباسؓ کو بخاری تعلیقاً لایا ہے اور تفسیر ابوہریرہؓ کو مسنداً
دوم… یہ کہ راوی تفسیر ابن عباسؓ کا علی ابن ابی طلحہ ہے اور وہ مجروح ہے۔ بالجملہ ہماری دلیل کو آپ کی دلیل پر تین وجہوں سے ترجیح ہے۔
قولہ… آپ جانتے ہیں کہ آیت لیؤمنن کے متعلق چند روز کس قدر ہم دونوں کا وقت ضائع ہوا اور آخر آپ کا دعویٰ قطعیۃ الدلالۃ صریح باطل نکلا۔
اقول… آیت کے متعلق بحث میں بنظر احقاق حق جو وقت صرف ہوا اس کو ضائع کہنا آپ ہی کا کام ہے۔ میں تو اﷲتعالیٰ کے فضل سے امید اجر کی رکھتا ہوں۔ آپ کو نہ ہو تو نہ سہی اور ظاہر بھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آیت کا قطیعۃ الدلالۃ ہونا ثابت ہوگیا اور حجت آپ پر اور آپ کے اتباع پر تمام