بخاری نے سورۂ مائدہ کی تفسیر میں یہ لکھا ہے: ’’وقال ابن عباسؓ متوفیک ممیتک‘‘ اور اسی سورۂ کی تفسیر میں باب ’’وکنت علیہم شہیدا مادمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شیٔ شہید (مائدہ:۱۱۷)‘‘ میں حدیث ابن عباسؓ لایا ہے۔ جس میں یہ لفظ ہے: ’’فاقول کما قال العبد الصالح وکنت علیہم شہیدا مادمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم‘‘ اس سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی ہے کہ امام بخاری کا یہ مذہب ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔ بلکہ بخاری کا مذہب یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ ہیں۔ دلیل اس پر یہ ہے کہ بخاری نے کتاب احادیث الانبیاء میں اپنا قول نزول عیسیٰ ابن مریم لکھا ہے۔ ابوذر کی روایت میں بغیر لفظ باب کے ہے اور غیر ابوذر کی روایت میں باب ہے۔ اس باب میں بخاری نے دو حدیثیں لکھی ہیں۔ ان میں سے پہلی حدیث ابوہریرہؓ کی ہے۔ ’’والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم‘‘ جس میں یہ لفظ موجود ہے۔ ’’ثم یقول ابوہریرۃ واقرؤا ان شئتم وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا‘‘
بخاری کا اس حدیث کو لانا دلالت کرتا ہے۔ اس پر کہ حضرت مسیح علیہ السلام بخاری کے نزدیک زندہ ہیں۔
قولہ… تو پھر باوجود ان مخالفانہ ثبوتوں کے قبل موتہ کی ضمیر کیونکر قطعی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کی طرف پھر سکتی ہے۔
اقول… اوپر ہم نے دلیل الزامی وتحقیقی سے ثابت کر دیا کہ ضمیر قبل موتہ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کی طرف پھرتی ہے۔ نہ کتابی کی طرف اگر ضمیر قبل موتہ کی کتابی کی طرف ہو تو مراد ایمان سے یا وہ ایمان ہے جو زہوق روح کی وقت ہوتا ہے تو لفظ قبل کا محض بے محل ہے۔ بجائے اس کے حین یا عند یا وقت چاہئے یا وہ ایمان جو اس سے پہلے ہوتا ہے۔ یعنی ایمان نافع معتدبہ تو اس وقت قبل موتہ کے قید لاطائل ہوتی ہے۔ کلام الٰہی کو معاذ اﷲ سفہا کا ساکلام بنائے دیتی ہے۔
قولہ… اور میں نے آپ کے خالص مستقبل کا بھی پورا پورا فیصلہ کر دیا۔
اقول… مخفی نہ رہے کہ ہم نے اوپر ثابت کر دیا کہ ہمارے مدعی کے اثبات کے لئے صرف یہ ہی امر کافی ہے کہ ضمیر قبل موتہ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہو۔ لیؤمن کو خالص مستقبل