ان میں عداوت بھی رہے گی۔ نہ یہ کہ ان سب فرقوں کا قیامت تک پایا جانا بھی ضرور ہے۔ اس معنی کے مؤید وہ حدیث ابوہریرہؓ ہے۔ جس کو باسناد صحیح امام احمد وابوداؤد نے روایت کیا ہے: ’’قال الحافظ فی الفتح وروی احمد وابوداؤد وباسناد صحیح من طریق عبدالرحمن بن آدم عن ابی ہریرۃ مثلہ مرفوعاً وفی ہذا الحدیث ینزل عیسیٰ علیہ السلام ثوبان ممصران فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعو الناس الیٰ الاسلام ویہلک اﷲ فی زمانہ عم الملل کلہا الا الاسلام وتقع الامنۃ فی الارض حتیٰ ترتع الاسود مع الابل وتلعب الصبیان بالحیات وقال فی آخرہ ثم یتوفی ویصلی علیہ المسلمون‘‘
قولہ… پھر وہب اور محمد بن اسحق اور ابن عباسؓ واقعہ موت کے قائل ہیں۔
اقول… وہب ومحمد بن اسحق اگرچہ واقعہ موت کے قائل ہیں۔ مگر اس امر کے بھی قائل ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے پھر زندہ کر کے مع الجسد ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اس سے بھی حیات ثابت ہوئی اور ابن عباسؓ کا واقعہ موت کا قائل ہونا کہیں مصرح نہیں ہے۔ ہاں تفسیر متوفیک کی ممیتک البتہ ان سے منقول ہے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ واقعہ موت کے وہ قائل ہیں۔ محتمل ہے کہ وہ آیت میں مانند قتادہ ضحاک وغیرہ کے تقدیم وتاخیر کے قائل ہوں۔ بلکہ راجح یہی ہے بدلیل اثرین صحیحین کے جن کا اوپر ذکر ہوا۔ علاوہ اس کے آپ کے نزدیک لفظ ممیتک کا دلیل موت حقیقی پر نہیں۔ جیسا کہ ازالۃ الاوہام میں مصرح ہے اور ابن عباسؓ کے اس روایت میں جو جرح ہے وہ اوپر بیان کی گئی۔ فتذکر!
قولہ… اور رسول اﷲﷺ موت مسیح پر صریح شہادت دیتے ہیں۔
اقول… یہ غلط محض ہے۔ کیونکہ حدیث صحیح البخاری میں صرف یہی ہے۔ ’’اقول کما قال العبد الصالح‘‘ پس کاف تشبیہ دلالت تغائر مقولین پر کرتا ہے نہ عینیت پر اور تغایر میں دو احتمال ہیں یا تو لفظی یا معنوی لفظی کی یہ صورت ہے کہ مثلاً آنحضرتﷺ لفظ توفیتنی نہ فر ماویں بلکہ بجائے اس کے لفظ امتنی فرماویں اور معنوی کی یہ صورت کہ آنحضرتﷺ لفظ توفیتنی ہی فرماویں۔ مگر لفظ توفیتنی سے امتنی مراد لیں۔ دونوں تقدیر پر موت مسیح پر شہادت مفقود ہے۔
قولہ… اور امام بخاری خود اپنا مذہب بھی یہ ہی ظاہر کرتے ہیں۔
اقول… امام بخاری نے ہرگز اپنا یہ مذہب ظاہر نہیں کیا۔ سبحانک ہذا بہتان عظیم! البتہ امام