اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیمۃ (آل عمران:۵۵)‘‘ دوسرے ’’واغرینا بینہم العداوۃ البغضاء الیٰ یوم القیمۃ‘‘ پہلی آیت کا خاکسار نے اپنی تحریر دوم میں دو طرح پر جواب دیا۔ اوّل یہ کہ آیت ’’وان من اہل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ (نسائ:۱۵۹)‘‘ اس کی تخصیص ہے۔ دوم احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ قبل قیامت سب شریر رہ جاویں گے۔ جن پر قیامت قائم ہوگی۔ پس معلوم ہوا کہ آیت عام مخصوص البعض ہے اور دوسری آیت کا یہ جواب دیا کہ یہ آیت بھی عام مخصوص البعض ہے۔ آپ نے اپنی تحریر دوم وسوم میں اس جواب پر کچھ اعتراض نہیں کیا اور پھر باربار ان ہی آیات کو جن کا جواب ہو چکا ہے۔ لکھے جاتے ہیں یہ امر آداب مناظرہ کے خلاف ہے۔ اگر آپ کے نزدیک جواب میرا صحیح تھا توا ستدلال ان آیات کے ساتھ ترک کرنا واجب تھا اور اگر غیرصحیح تھا تو اس کے عدم صحت کے وجہ لکھنا واجب تھی اور اگر صرف یہ ہی وجہ ہے کہ آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ ذوالوجوہ ہے۔ قطیعۃ الدلالۃ نہیں ہے۔ اس لئے مخصص نہیں ہوسکتی ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ اوپر ہم نے آیت کا قطعیۃ الدلالۃ ہونا دلیل الزامی وتحقیقی سے ثابت کر دیا۔ فتذکر!
علاوہ اس کے ان دونوں آیتوں کی دلالت اس معنی پر کہ اس دنیا کے زوال تک کفار اہل کتاب باقی رہیں گے۔ صرف آپ کا فہم ہے یا سلف وخلف میں سے کسی نے یہ معنی بھی لکھے ہیں۔ اگر کسی نے لکھے ہیں تو سند لائیے اور اگر صرف آپ کا فہم عالی ہے تو ہرگز قابل اعتبار نہیں۔ آپ تو فہم معانی آیات میں بہت خطا کیا کرتے ہیں۔ دیکھئے اسی آیت ’’اغرینا بینہم العداوۃ والبغضاء الیٰ یوم القیمۃ (مائدۃ:۱۴)‘‘ بین بینہم کا مرجع آپ نے یہود ونصاریٰ کو تحریر اوّل میں ٹھہرایا ہے۔ حالانکہ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ قول ضعیف ہے۔ مفسرین نے اس کو قیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اصل مرجع اس کا فرق نصاریٰ میں سیاق قرآن مجید بھی اسی پر دال ہے۔ کیونکہ اس سے قبل یہ آیت ہے۔ ’’ان الذین قالوا انا نصاریٰ اخذنا میثاقہم فنسوا حظا مما ذکروا بہ (مائدۃ:۱۴)‘‘ مطلب پہلی آیت کا یہ ہے کہ میں تیرے تابعداروں کو کافروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔ یعنی وقت وعد سے لے کر قیامت تک جس زمانہ میں یہ دونوں پائے جائیں گے۔ تیرے تابعدار غالب رہیں گے نہ یہ کہ ان دونوں کا قیامت تک پایا جانا بھی ضرور ہے اور مطلب دوسری آیت کا یہ ہے کہ ہم نے نصاریٰ کے فرقوں میں عداوت ودشمنی لازم کر دی ہے۔ قیامت تک یعنی جس زمانہ میں یہ فرق پائے جائیں گے تو ان