دیکھو اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول سورۂ مائدہ میں یوں حکایت کی ہے۔ ’’ماقلت لہم الاما امرتنی بہ ان اعبدوا اﷲ ربی وربکم (مائدہ:۱۱۷)‘‘ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ’’کما امرتنی‘‘ نہیں کہا۔ پس معلوم ہوا کہ ما امرتنی اور کما امرتنی میں فرق ہے۔ ایسا ہی ماقال العبد الصالح اور کماقال العبد الصالح میں فرق ہے۔ ’’ومن لم یفرق بینہما فقد اخطا خطاء فاحشاً‘‘ پس یہ استدلال آپ کا اوہن من نسج العنکبوت نکلا۔ الحمد ﷲ علیٰ ذالک!
قولہ… کیا قطعیۃ الدلالۃ اسی کو کہتے ہیں کہ کوئی اس کے ضمیرخدا کی طرف پھیرے اور کوئی ہمارے سید ومولیٰ نبی عربی خاتم الانبیاء کی طرف اور کوئی حضرت عیسیٰ کی طرف اور کوئی قبل موتہ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیرے اور کوئی کتاب کی طرف۔
اقول… اوپر ثابت ہوا کہ کتابی کی طرف قبل موتہ کی ضمیر پھیرنا باطل ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیرنا متعین ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ارجاع ضمیر قبل موتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اثبات مدعی کے لئے کافی ہے۔ ضمیر بہ کی خواہ حق تعالیٰ کی طرف پھیری جاوے یا آنحضرتﷺ کی طرف یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اختلاف ضمیر بہ قطعیۃ میں کچھ مخل نہیں ہے۔
قولہ… اور پھر اہل کتاب کے لفظ میں بھی تفرقہ اور اختلاف ہے کہ وہ کس زمانہ کے اہل کتاب ہیں۔
اقول… جتنے احتمالات مخالف مطلوب میں ان سب کا ابطال اوپر ہو چکا۔ فتذکرہ!
قولہ… پھر بقول آپ کے ایمان لانے والوں کا زمانہ بھی ایک نشان دہی کے ساتھ مقرر اور معین نہیں۔
اقول… منتہے اس زمانہ کا تو لفظ قبل موتہ سے سمجھا جاتا ہے اور مبدء قرینہ حالیہ سے یعنی بعد نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام بالجملہ وہ زمانہ بعد نزول وقبل الموت کے درمیان میں ہوگا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا تعیین ہوگی۔ علاوہ اس کے زمانہ کا عدم تیین قطعیۃ الدلالۃ ہونے میں مخل نہیں ہوسکتا ہے۔ دیکھو قیامت کا زمانہ کوئی معین نہیں ہے۔ حالانکہ نصوص دالہ علی القیامۃ قطعی ہیں۔
قولہ… قرآن کریم کے کتنے مقامات سے ثابت ہوا ہے کہ اس دنیا کے زوال تک کفار اہل کتاب باقی رہیں گے۔
اقول… آپ نے اس باب میں تحریر اوّل میں دو آیتیں لکھی ہیں۔ ایک ’’وجاعل الدین