تم کو بچائیں گے اور بالفرض اگر یہ معنی آپ کے نزدیک خطا تھے تو تخطیہ کافی تھا۔ الزام تحریف ابن عباسؓ سے جلیل القدر صحابی کو اور دیگر بزرگوں کو کمال سوء ادب ہے۔ اعاذنا اﷲ منہ ؎چون خدا خواہد کہ پردہ کس درد
میلش اندر طعنۂ پاکان برد
قولہ… اگر جسمانی طور پر رفع مراد لیا جائے تو سخت اشکال پیش آتا ہے۔ الیٰ قولہ تو کیا خداتعالیٰ دوسرے آسمان میں بیٹھا ہوا ہے تو دوسرے آسمان میں ہونا رافعک الیّ کا مصداق ہو جائے۔
اقول… اس اشکال کو خصوصیت رفع جسمانی کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ اشکال تو رفع روحانی پر بھی وارد ہوتا ہے اور تقریر اس کی بعینہ یہی ہے جو آپ نے کی یعنی احادیث صحیحہ بخاری سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح معہ اپنے خالہ زاد بھائی کے دوسرے آسمان پر ہیں۔ تو کیا خداتعالیٰ دوسرے آسمان میں بیٹھا ہوا ہے تا دوسرے آسمان میں ہونا رافعک الیّ کا مصداق ہو جائے اور حل اس اشکال کا یہ ہے کہ فوقیت واستواعلیٰ العرش کی صفت اﷲ تعالیٰ کے لئے تادلہ کتاب وسنت ثابت ہے اور کیفیت اس کی مجہول ہے۔ پس فوق السموات وعرش کی طرف اٹھانا اﷲتعالیٰ کی طرف اٹھانا ہے۔ اس سے اﷲتعالیٰ کا دوسرے آسمان میں بیٹھا ہونا کہاں لازم آتا ہے۔ یہ جواب تو موافق مذہب سلف کے ہے جو آیات صفات میں تاویل نہیں کرتے ہیں اور موافق خلف کے وہ تاویل ہے جو بیضاوی وغیرہ میں لکھی ہے۔ لفظ بیضاوی یہ ہے: ’’الیٰ محل کرامتی ومقر ملائکتی‘‘ شیخ زادہ اس کے تحت میں لکھتا ہے: ’’لما کان ظاہر الایۃ مشعر بکونہ تعالیٰ متمکناً فی مکان یستعلیٰ علیہ بین ان المراد برفعہ رفعہ الیٰ مکان رفیع الاانہ عبرعن رفعہ اﷲ برفعہ الی نفسہ تشریفا لذلک المکان وتعظیما کما قال ابراہیم علیہ السلام انی ذاہب الیٰ ربی وانما ذہب علیہ السلام من العراق الیٰ الشام ویسمی الحجاج زوار اﷲ والمجاورون جیران اﷲ کل ذلک لتعظیم الاماکن وتفخیماً فکذا ہذا‘‘
قولہ… بلکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ خداتعالیٰ کے فاعل ہونے اور انسان کے مفعول ہونے کی حالت میں بجز قبض روح کے اور کوئی معنی نہیں ہوسکتا۔ اس بناء پر میں نے ہزا روپیہ کا اشتہار بھی دیا ہے۔
اقول… اوپر ہم نے ثابت کر دیا کہ جس مقام پر توفی کے معنی موت کے آئے ہیں وہاں قرینہ موجود ہے جو علامت مجاز کی ہے۔ پس مجھے جھوٹا اشتہار دینا تو منظور نہیں۔ لیکن میں یہ سچا اشتہار دیتا